گولان راکٹ حملہ: دشمن کو سختی سے نشانہ بنائیں گے، اسرائیل
28 جولائی 2024اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے لبنان سے فائر کیے گئے راکٹ سے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر بارہ افراد کی ہلاکت کے بعد ''دشمن کو سختی سے نشانہ بنانے‘‘ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تاہم اس صورت حال نے ایک بار پھر یہ خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ غزہ کی جنگ پورے خطے میں پھیل سکتی ہے۔ اسی دوران ایران نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ لبنان میں کوئی بھی نئی فوجی مہم جوئی اس کے لیے ''غیر متوقع نتائج‘‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ فرانس اور جرمنی سمیت مغربی طاقتوں نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے فریقین کو پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
یورپی یونین نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس واقعے کو سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ''اسرائیلی شہریوں پر سب سے مہلک حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین لبنانی سرحد کے آر پار فائرنگ کا باقاعدہ تبادلہ ہوتا آیا ہے۔ اسرائیل نے لبنانی ملیشیا حزب اللہ پر گولان کے حملے میں ایرانی ساختہ الفلق ون راکٹ فائر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ تاہم باقاعدگی سے اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے والی ایرانی حمایت یافتہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کا اس واقعے سے ''کوئی تعلق‘‘ نہیں ہے۔
تاہم حزب اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے ایسا ہی ایک راکٹ ہفتے کے روز گولان میں اسرائیلی فوجی اہداف کی طرف داغا تھا۔ مجدل شمس نامی علاقے میں فٹ بال کے ایک میدان پر کیے گئے اس راکٹ حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو امریکہ کا اپنا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے۔ ان کے دفتر نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم واپس آنے کے بعد فوری طور پر اپنی سکیورٹی کابینہ کے اجلاس میں چلے گئے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا، ''حزب اللہ اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرے گی، وہ قیمت جو اس نے پہلے کبھی ادا نہیں کی۔‘‘
’ہر اشارہ‘ حزب اللہ کے گولان پر راکٹ حملے کی نشاندہی کر رہا ہے، بلنکن
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ تمام شواہد ہفتے کے روز گولان کی پہاڑیوں پر ہونے والے مہلک راکٹ حملے میں لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بلنکن نے جاپان کے دورے کے دوران کہا، ''ہر اشارہ یہ ہے کہ واقعی راکٹ حزب اللہ کا تھا۔ ہم اسرائیل کے اپنے شہریوں کو دہشت گردانہ حملوں سے بچانے کے حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔”
بلنکن نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تشدد میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
بلنکن نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا، جس کی وجہ سے اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحد پار سے مخاصمتیں بڑھ رہی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ''ہم غزہ کے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے، اس میں بہت زیادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ ہم اسرائیلیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں، ہم فلسطینیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں، ہم لبنانیوں کو بھی خطرے سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔"
حزب اللہ نے 'تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں‘
اس راکٹ حملے کے بعد اسرائیلی ایئر فورس نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی۔
اسرائیل نے گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے پر حملے کا الزام ایرانی حمایت یافتہ لبنانی تنظٰیم حزب اللہ پر عائد کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے اس کارروائی کے ساتھ ''تمام ریڈ لائنز عبور‘‘ کر لی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہ ایک فوج دوسری فوج سے نہیں لڑ رہی بلکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جو جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے نمائندوں نے بھی دونوں فریقوں سے "زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے" کی اپیل کی ہے کیونکہ یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس حملے سے خطے میں پہلے سے جاری غزہ کی جنگ میں وسعت آ سکتی ہے۔
غزہ میں جاری جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس حملے میں تقریباﹰ 12 سو افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، جب کہ حماس کے جنگجو دو سو چالیس سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ہمراہ غزہ لے گئے تھے۔ اب تک مختلف ڈیلز اور ایک فوجی کارروائی کے ذریعے کئی یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جا چکی ہے، تاہم اب بھی سو سے زائد یرغمالی حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے تقریباﹰ چالیس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق اس مسلح تنازعے میں اب تک کی گئی اسرائیلی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں غزہ میں چالیس ہزار کے قریب فلسطینی ہلاک اور نوے ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
ش ر⁄ ع ا، م م (اے ایف پی، روئٹرز)