1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہاؤس آف کارڈز پر قائم عمران خان کی حکومت

9 جون 2019

بیساکھیوں پر کھڑی حکومت دھڑام سے گر بھی سکتی ہے کیونکہ ہاؤس آف کارڈز میں کوئی ایک پتہ بھی کھسکے تو پورا گھر بکھر جاتا ہے۔ لیکن حکومت کے خاتمے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3K5yg
Blogger Azaz Syed
تصویر: Azaz Syed

یہ فروری دو ہزار تین کی بات ہے۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنے قریبی رفقا میں بیٹھے اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی اور وزیر اعلیٰ سندھ  علی محمد مہر کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے تھے۔ دونوں چند ماہ پہلے ہی مسند پر فائز کیے گئے تھے اور اب ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مایوسی اس قدر تھی کہ بعض سینئر فوجی افسران پورا نظام لپیٹنے کے مشورے دے رہے تھے۔ اس محفل میں بیٹھے اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے مشورہ دیا کہ پورا نظام بدلنے کی بجائے نئے نظام میں مسئلہ پیدا کرنے والوں یا کام نہ کرنے والوں کو بدل دیا جائے تو بہتر ہے۔ ان کی دلیل تھی کہ بڑی محنت سے نظام تشکیل دیا جاتا ہے ایک دم اسے ختم کرنے سے نظام بنانے والوں پر ہی انگلیاں اٹھتی ہیں۔

ڈاکٹر عشرت العباد کی کہی گئی بات کچھ بحث مباحثے کے بعد سن لی گئی۔ آنے والے دنوں میں میر ظفراللہ جمالی اور علی محمد مہر کو نظام سے نکال باہر کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کے سالوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جو سسٹم میں رہتے ہوئے سسٹم  سے متصادم ہوا، اسے نکال دیا گیا چاہے وہ خود پرویز مشرف ہی کیوں نہ ہوں۔

پرویز مشرف سن دو ہزار سات میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اقتدار سے نکالنے لگے تو ان کے خلاف عوامی تحریک شروع ہو گئی اور ان کا اپنا اقتدار خطرے میں پڑ گیا۔ ملک میں نئے انتخابات منعقد ہوئے اور پیپلزپارٹی کی حکومت وجود میں آئی تو اسٹیبلشمنٹ پرویز مشرف کا بوجھ بھی برداشت نہ کر سکی۔

خیال یہ تھا کہ مشرف دور میں ان کے سلیکٹڈ وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کر سکے شاید آئندہ بھی ایسا نہ ہو۔ مگر پاکستان کی قسمت ہی ایسی ہے کہ جمہوری دور آیا بھی تو تب بھی کوئی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکا۔ ملک کی اکہتر سالہ تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے۔ اکثر وزرائے اعظموں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے آبرو ہی ہوکر نکلنا پڑا۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں اقتدار سے باہر نکلوایا گیا۔ راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار پر بالترتیب آصف علی زرداری اور نوازشریف کا سایہ پڑا رہا اور انہوں نے وزارت عظمیٰ کے آفس میں مختصرا دوار گزارے۔

سال دو ہزار اٹھارہ کے طلاطم خیز سیاسی حالات میں انتخابات کے بعد وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی۔

کچھ لوگوں کو خوش فہمی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد سے آنے والی یہ حکومت اقتدار میں آتے ہی عوام کو ریلیف دے گی اور اس کے لیے پانچ سال تو کیا دس سال کی مدت کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابھی حکومت کو آئے ایک سال بھی نہیں ہوا کہ اس کے خاتمے کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ سرگوشیاں یہ بھی ہیں کہ لانے والے خود ان سے تنگ ہیں اور وقت آنے پر عمران خان کی حکومت کا بھی وہی حال ہونے جا رہا ہے، جو ان سے پہلے وزیراعظم کے ساتھ ہو چکا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں حکومت کی اب تک کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اہم قومی امور پر حکومت مکمل طور پر بے بس ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، جو روزانہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور پٹرول و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت عوام پر بھاری پڑ رہی ہے۔

دراصل یہ سارا مسئلہ ملک میں نیب کی طرف سے سیاستدانوں اور کاروباری افراد کے خلاف جاری کارروائیوں کا شاخسانہ بھی ہے۔ جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں معیشت مستحکم ہو ہی نہیں سکتی۔

ادھر خیبر پختونخوا اور فاٹا کے بعض علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے دو معزز ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کوگرفتارکیا گیا ہے۔ یہ معاملہ بظاہر حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ  دیکھ رہی ہے مگر ظاہر ہے اس کی اصل ذمہ داری تو حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔

بلوچستان میں امن عامہ کی صورتحال خراب ہے تو کراچی میں لوگ تجاوزات کے خلاف آپریشن سے الگ ناراض ہیں۔ سندھ کے علاقوں میں پیپلزپارٹی کے حامی نیب کے مقدمات کو انتقامی کارروائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پنجاب میں تو پہلے ہی ایک سیاسی تلخی کا ماحول ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت بارود کے ایک ایسے پہاڑ پر چڑھ کے بیٹھ گئی ہے کہ جسے ایک چنگاری دکھانے کی دیر ہو گی کہ پانسا پلٹ جائے گا۔

بظاہر یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے۔ لیکن رواں ماہ جون میں بجٹ کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھیں گی۔ پھر نومبر سے پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بھی ہے۔ اسی فیصلے کے بعد اپوزیشن کی تحریک زور پکڑے گی اور اتحادیوں کی کمزور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت دھڑام سے گر بھی سکتی ہے کیونکہ ہاؤس آف کارڈز میں سے کوئی ایک پتہ بھی کھسکے تو پورا گھر بکھر جاتا ہے۔ لیکن حکومت کے خاتمے  سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ملک میں جمہوری استحکام کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی نظام میں مداخلت نہ کی جائے اور اسے فطری انداز میں پھلنے پھولنے دیا جائے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔