ہالی وُوڈ سپر ہٹ فلموں کا تمنائی ہے
8 جنوری 2016کوئی چالیس برس پرانی بات ہے کہ نوجوان ہدایتکار اسٹیون اسپیل برگ اپنی جاسوسی فلم ’جاز‘ کے پریمیئر پر کھڑے انتہائی نروس انداز میں اپنی انگلیوں کے ناخن کاٹ کر رہے تھے۔ سن 1975 میں ریلیز ہونے والی ’جاز‘ فلم کی کامیابی کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا تھا اور سب کچھ مفروضوں پر مبنی تھا۔ پریمیئر کے دوران کئی شائقین فلم شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد سینما ہال سے رخصت ہوئے اور اِس سے اسپیل برگ کی بےچینی اور پریشانی دوچند ہو گئی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ’جاز‘ فلم سپر ہٹ فلموں کی اگلی صفوں میں شمار ہونے والی انتہائی کامیاب فلم قرار دی گئی اور اِس سے ’بلاک بَسٹر‘ فلموں کے سلسلے نے جنم لیا۔
چالیس برس بعد، آج کی ہالی ووڈ انڈسٹری ’بلاک بَسٹر‘ فلموں پر خاص طور پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ فلموں میں کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری اور پھر ’بلاک بَسٹر‘ ہونے کی صورت میں اصل سرمائے کو بھاری شرح سود کے ساتھ واپس کرنے کے علاوہ ایک خطیر رقم ہدایتکار اور دوسرے کارکنوں میں بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ ہالی ووڈ فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہارورڈ بزنس اسکول کی پروفیسر انیتا ایلبرزی نے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اِس کتاب کا نام ’Hit-making, Risk-taking and the Big Business of Entertainment‘ ہے۔
اِس کتاب میں انیتا ایلبرزی نے کئی اہم کامیاب فلموں کا تذکرہ کیا ہے۔ سن 2010 میں وارنر برادرز اسٹوڈیوز نے کُل بائیس فلمیں ریلیز کی تھیں اور اِن کی مجموعی لاگت ڈیڑھ بلین ڈالر سے زائد تھی۔ اس کل سرمائے میں ایک تہائی تین فلموں پر خرچ کیا گیا اور ان میں ہیری پوٹر سیریز کا پہلا حصہ(250 ملین ڈالر)، انسیپشن (175 ملین ڈالر) اور کلیش آف ٹائی ٹینز ( 125 ملین ڈالر) شامل تھیں۔ انیتا البرزی کے مطابق وارنر برادرز اسٹوڈیوز کی انتظامیہ نے ’ سیکس اینڈ دی سٹی ٹُو‘ پر بھی 100 ملین ڈالر خرچ کیے۔ البرزی کے مطابق توقعات اور امید کے سہارے پر مختلف اسٹوڈیوز کی انتظامیہ بےدریغ رقوم خرچ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ کئی شائقین اور ناقدین سپر ڈُوپر ہٹ فلموں کی دوڑ سے حقیقی فلم سازی کے معیار میں کمی واقع ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔
اب اسٹارز وارز کے ساتویں حصے نے جس انداز میں عوام کی پذیرائی حاصل کی ہے، وہ والٹ ڈزنی اسٹوڈیوز کے لیے حیران کن کامیابی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اس سائنس فکشن کے خالق جورج لوکاس نے اِس فلم کے تمام حقوق والٹ ڈزنی کو فروخت کر دیے تھے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ایسی ’بلاک بَسٹر‘ فلموں کا انداز میکڈانلڈ کے کھانوں جیسا ہے، جس میں دائمی لذت موجود نہیں ہوتی لیکن کھانے والے کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ ایک ’بلاک بَسٹر‘ فلم مستقبل کی فلموں کی راہ کا بھی تعین کرتی ہیں اور بھیڑچال کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔