ہالینڈ میں حکمران جماعت کو زبردست شکست
10 جون 2010گزشتہ روز ڈالے گئے ووٹوں میں سے تقریباً نوے فی صد کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور اس کے مطابق 43 سالہ Mark Rutte کی لبرل پارٹی اس وقت تک کامیاب ترین ہیں۔ 150 ارکان کی پارلیمان میں سے لبرل پارٹی کو31 اور سوشل ڈیموکریٹس کو 30 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کے بعد تیسری کامیاب جماعت اسلام مخالف قدامت پسند رہنما گیئرٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی ہے اور اس کے 24 ارکان پارلیمان میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
وزیراعظم ژان پیٹر بالکن اینڈے کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کو اندازوں سے کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان کے حصے میں صرف21 نشستیں آئی ہیں۔ یہ قبل از وقت انتخابات سربراہِ حکومت کے دائیں بازو کے اعتدال پسند اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد ضروری ہوگئے تھے۔ بالکن اینڈے نے اس شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت سے استعفی دے دیا ہے تاہم نئی حکومت کی تشکیل تک وہ بطور وزیراعظم کام کرتے رہیں گے۔
سولہ اعشاریہ سات ملین کی آبادی والے ہالینڈ میں 12 ملین رائے دہندگان ہیں جب کہ تقریباً اٹھارہ سیاسی جماعتوں نے اِن عام انتخابات میں حصہ لیا۔ ووٹنگ ہالینڈ کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوئی اور رات نو بجے تک جاری رہی۔
انتخابات سے قبل کرائے گئے ایک سروے کے مطابق Mark Rutte کی لبرل پارٹی 34 سے 36 کے قریب نشستیں ملیں گی جب کہ ایمسٹرڈیم کے میئر 62 سالہ Jacob Cohen کی لیبر پارٹی 30 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پررہے گی۔ چون سالہ موجودہ وزیرِاعظم بالکن اینڈے کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ 24 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ تاہم اسلام مخالف قدامت پرست رہنما گیئرٹ ولڈرز کی جماعت کی مقبولیت اندازوں سے زیادہ رہی اوران کی جماعت تیسرے نمبر پر آئی۔
گزشتہ عام انتخابات میں لبرل پارٹی کی21، لیبر پارٹی کی 33 اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی41 نشستیں تھیں۔ کسی بھی پارٹی کی واضح اکثریت نہ ہونے کی بناء پر، کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی، لیبر پارٹی اور کرسچن یونین نے مل کر مخلوط حکومت بنائی تھی۔ اس سال فروری میں یہ مخلوط حکومت اُس وقت ختم ہوگئی تھی، جب لیبر پارٹی نے افغانستان میں ڈچ فوجیوں کے مزید قیام کے حوالے سے اٹھنے والے مسئلے کے پیشِ نظرحکومت سے علٰیحدگی اختیار کر لی تھی۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : عاطف توقیر