ہجرت، زندگی کا اک مشکل فیصلہ
5 اکتوبر 2009اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی ترقی کی تازہ رپورٹ میں ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے، جس کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریبا ایک ارب لوگ یا ہر سات میں سے ایک باشندہ ہجرت کر رہا ہے۔
انندو دتّا رام سوامی اور فرانک فوغش کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانوں کے لئے نقل مکانی کا پہلو کس حد تک مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی طور پر ہجرت کرنے والے ان لوگوں کا یہ سفر کس حد تک خطرات اور رکاوٹوں سے بھرپور ہوتا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ے کہ ان تارکین وطن نے بحثیت مجموعی دنیا کے ہر ملک کو متاثر کیا ہے، خاص طور پر ان ممالک کو، جہاں کی آبادی میں واضح کمی واقع ہورہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہجرت کا فیصلہ عمومی طور پر ایک بہتر زندگی کے تعاقب میں کیا جاتا ہے جن کی بنیادی وجوہات میں زمینی تغیرات یا پھر بہتر روزگار کے مواقع کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور عوامل بھی ہیں جو ترک وطن کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں معاشرتی کشمکش، سیاسی یا مذہبی منافرت، ماحولیاتی تبدیلیاں اور اچانک رونما ہونے والے فطری یا غیر فطری حادثات بھی شامل ہیں۔
UNDP کی یہ رپورٹ یہاں پر مختلف مفروضات کو چیلینج کرتی دکھائی دیتی ہے اور ترک وطن کی حمایت میں دلیل دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’یہ عمل انسانی ترقی کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ یہ آمدن کے ذرائع پیدا کرتا ہے، جبکہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں ڈرامائی تبدیلیاں لاتا ہے۔‘‘
شماریاتی نقطہ نظر سے یہ رپورٹ کہتی ہے کہ سات سو چالیس ملین لوگ اندرون ملک ہجرت کرتے ہیں، جبکہ بین الاقوامی طور پر بقیہ دو سو چودہ ملین لوگ اپنا وطن ترک کر دیتے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ستر ملین لوگ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ اور یورپ نے ترقی پذیر ممالک کے بہت سے باشندوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔
حالیہ مالیاتی بحران کے حوالے سے یہ رپورٹ کہتی ہے کہ بارڈر کنٹرول قوانین کے تحت بہت سے تارکین وطن کو واپس بھیج دیا گیا ہے یا پھر انہیں ترقی یافتہ ممالک میں داخل ہونے ہی نہیں دیا جاتا۔ حالیہ دنوں میں اندرونی ہجرت کے پہلو کو دیکھتے ہوئے اس رپورٹ میں پاکستان کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2050 ء تک دو سو ملین افراد اپنے وطن سے ہجرت کر سکتے ہیں۔
رپورٹ: عبدالرؤف انجم
ادارت: انعام حسن