ہر سال ہزاروں افراد سانپ کے ڈسنے سے ہلاک
19 مارچ 2019نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سانپ کے ڈسنے کے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے حقیقت میں سانپ کے کاٹنے کے کیسز کی تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہء صحت کے مطابق ہر سال 81 ہزار سے ایک لاکھ 38 ہزار افراد سانپ کے ڈسے جانے سے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ چار لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ گلوبل سنیک بائٹ انیشی ایٹیو نامی تنظیم کے مطابق اینٹی وینم يعنی سانپ کے زہر کو بے اثر کرنے والی دوا، درکار مقدار کی صرف دو فیصد میسر ہے۔
نیوز ایجنی اے ایف پی کی رپوٹ کے مطابق کینیا کے ایک گاؤں کی چار سالہ رہائشی ایک بچی کی زندگی چار سال پہلے اس وقت بدل گئی جب اسے اور اس کی دو سالہ بہن کو رات میں سانپ نے ڈس لیا۔ اس کی چھوٹی بہن اس حملے میں جانبر نہ ہوسکی اور سانپ کے زہر کے باعث ہلاک ہوگئی۔ لیکن چار سالہ بچی کے جسم کا نصف حصہ فالج زدہ ہو گیا۔ اس بچی کے گاؤں میں ہسپتال تھا ہی نہیں، اس کا والد اسے تیس کلومیٹر دور شہر لے گیا جہاں کے ہسپتال میں اینیٹی وینم موجود نہیں تھا۔ اسے ایک دوسرے شہر کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں دو ماہ وہ ہسپتال میں زیر علاج رہی۔ اب اس کے غریب والدین کےپاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ اس کے لیے ایک وہیل چیئر کا انتظام کر سکیں۔
اس سال 21 فروری کو اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے 2030ء تک سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کو نصف فیصد تک کم کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ اس ورکنگ گروپ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پالیسی سازوں اور ادویات بنانے والی کمپنیوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کی ایک بہت بڑی وجہ متاثرین کی شہریت ہے اور وہاں کی کمزور سیاسی آوازیں۔ اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ 2024ء تک افریقہ میں پانچ لاکھ اینٹی وینم مہیا کرنا چاہتا ہے۔