ہرنائی کوئلہ کانوں پر عسکریت پسندوں کے حملے، 4 مزدور ہلاک
27 فروری 2023عسکریت پسندوں کےحملے کے نتیجے میں ہرنائی میں ہلاک ہونے والے مزدوروں میں سے دو کا تعلق خیبر پختونخوا جبکہ دو کا بلوچستان کے علاقے مسلم باغ سے بتایا گیا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ ماضی میں ہرنائی اور ملحقہ علاقوں میں ہونے والے اکثر حملو ں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار شعیب احمد کہتے ہیں کہ ضلع ہرنائی میں عسکریت پسندوں نے کوئلے کی کانوں پر حملہ اس وقت کیا، جب وہاں معمول کے مطابق کام نہیں ہو رہا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے احمد نے کہا، "جس علاقے میں یہ حملے ہوئے ہیں وہ ہرنائی شہر سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حملہ آوروں نے پہلے مزدوروں پر فائرنگ کی پھر ساتھ ہی واقع کوئلہ کانوں کی مشینری کو اگ لگا کر وہاں سے پہاڑوں کی جانب فرار ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی ملزم کی گرفتاری ممکن نہیں ہوئی ہے۔"
گوادر میں امن و امان کی صورت حال کشیدہ، حکومت تنقید کی زد میں
بلوچستان میں دو بم دھماکے، کم از کم چھ افراد ہلاک
شعیب احمد نے بتایا کہ کوئلے کی کانوں پر حملوں کے بعد سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کردیے گئے ہیں اور حساس مقامات پر فورسز کی اضافی نفری بھی تعینات کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہرنائی انتظامیہ مقامی قبائلی عمائدین کے ساتھ رابطے میں ہے۔ مائن ورکرز کی سکیورٹی ہم سب کے لیے بہت اہم ہے۔ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کے مطالبات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ کوئلہ کانوں کے مالکان بھی ورکرز کے اوقات کار اور سکیورٹی کے حوالے سے ایک پلان مرتب کیا جائے۔‘‘
ہرنائی میں کوئلہ کے وسیع ذخائر میں بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی کام کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں کوئلہ کانوں کے مزدور بھی کئی بار اغوا ہو چکے ہیں۔
بلوچستان میں مائن ورکرز کے سکیورٹی خدشات
عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد ہرنائی اور ملحقہ علاقوں میں اکثر کوئلہ کانوں کو احتجاجی طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی مقامی قبائل بھی سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین نے سوال کیا ہے کہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود عسکریت پسند کس طرح آسانی سے علاقے میں داخل اور فرار ہوجاتے ہیں؟
مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے لگائے اور امن وامان کی ابتر صورتحال پر مقامی انتظامیہ کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
پینتالیس سالہ سید ولی بھی ہرنائی میں کان کن ہیں۔ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد انہیں بھی اپنے روزگار اور سکیورٹی کے حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ولی نے کہا، ''یہاں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ کانوں کے مالکان اور حکومت نے کان کنوں کی جانوں کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ اگر موثر حفاظتی انتظامات ہوتے تو شاید اس نوعیت کے واقعات پیش ہی نہ آتے۔ جس وقت یہ حملہ کیا گیا، ہم اپنے ڈیرے میں موجود تھے۔ شدید فائرنگ کی آوازیں حملے کے بعد بھی کافی دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ یہاں ضرورت کے مطابق کسی کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ہے۔‘‘
ولی کے بقول، ''ہزاروں فٹ کی گہرائی میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی جانوں کو بہت خطرات لاحق ہیں۔ ہم نے کئی بار سکیورٹی خدشات سے مائن مالکان کو آگاہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مقامی انتظامیہ سے بات کی ہے۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ ہمارے لیے کام کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو عسکریت پسند کئی بار کام چھوڑنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔
بلوچستان میں داعش کے خلاف بڑا آپریشن
بلوچ عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن میں تیزی
خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ بخت محمد گزشتہ 15 سالوں سے ہرنائی میں واقع ایک کان میں کام کر رہے ہیں اور کان کنوں کی مقامی نمائندہ تنظیم سے بھی وابستہ ہیں۔ بخت محمد کہتے ہیں کہ مزدوروں کی جانوں کو لاحق خطرات دور کرنے پر حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد نے کہا، ''حکومتی ادارے یہاں ہمیشہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں، جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی جارہی ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا، ''کوئلہ کانوں کی سکیورٹی پر خطیر رقم خرچ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن یہاں حفاظتی انتظامات کا یہ عالم ہے کہ کوئی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔ہمارے مزدور آئے روز قتل اور اغواء ہو رہے ہیں۔ انہیں انصاف کون دے گا؟"
بخت محمد کے بقول کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے سکیورٹی خدشات دور نہ کیے گئے تو صوبے کے دیگر حصوں میں واقع کوئلے کی کانوں بھی غیر معینہ مدت تک کام بند کیا جا سکتا ہے۔