ہزاروں روسی شہری داعش کے ہمراہ لڑ رہے ہیں، حکام
18 ستمبر 2015روسی وفاقی سلامتی کے فرسٹ ڈپٹی ڈائریکٹر سرگئی سمرینوف نے کہا ہے کہ ان کے تقریبا چوبیس سو شہری شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ روسی نیوز ایجنسی آر آئی اے کے مطابق سمرینوف کا مزید کہنا تھا کہ وسطیٰ ایشائی ریاستوں سے مجموعی طور پر تقریباﹰ تین ہزار جہادی داعش کے لیے لڑائی میں مصروف ہیں۔
اس روسی عہدیدار کے مطابق، ’’یہ کہنا کہ دمشق حکومت کی روسی حمایت کی وجہ سے شام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، سچ نہیں ہے۔ تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ وہاں داعش کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘‘
سرگئی سمرینوف کا امریکا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’کچھ ملک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون سے گریز کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’اس معاملے میں کچھ تعاون پایا جاتا ہے لیکن جس سطح کے تعاون کی ضرورت وہ موجود نہیں ہے، خاص طور پر امریکا کے ساتھ۔‘‘
’شام میں روسی فوجی بھیجنے پر غور‘
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگر صدر اسد کی طرف سے درخواست کی گئی تو روس وہاں اپنے فوجی بھیجنے پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ روسی صدر کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا نیوز ایجنسی انٹرفیکس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہماری باہمی بات چیت میں اگر ایسی کوئی درخواست کی گئی تو ظاہر ہے ہم اس پر غور کریں گے اور بات چیت بھی کریں گے۔‘‘
قبل ازیں شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے یہ بیان دیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر روس سے اپنے فوجی شام بھیجنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔ تاہم شامی وزیر خارجہ نے ایسی خبروں کی تردید کی تھی کہ روسی فوجی پہلے ہی شام میں موجود ہیں اور سرکاری فورسز کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں امریکی محکمہ دفاع نے ایسی خبریں جاری کی تھیں کہ روسی فورسز شام کے ساحلی شہر الاذاقیہ کے قریب ایک ایئر پورٹ کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ روس نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردی خاص طور پر داعش سے نمٹنے کے لیے شام کو فوجی آلات فراہم کرتا رہے گا۔