ہلاکتوں کے خلاف کابل میں ہزارہ کمیونٹی کا احتجاج
11 نومبر 2015افغانستان کی اقلیتی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف ایک عرصے سے کارروائیاں جاری ہیں۔ انیس سو نوّے کی دہائی میں بھی اس کمیونٹی کے ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا تھا لیکن رواں برس ایک مرتبہ پھر اس نسلی گروپ کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آج حکومت مخالف ہونے والا احتجاج بنیادی طور پر کابل کے مغرب میں ہوا، جو ہزارہ کمیونٹی کا رہائشی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ احتجاج تو پُر امن رہا لیکن مظاہرین بہت غصے میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
اس احتجاجی مظاہرے میں شریک چالیس سالہ سید کریم کا کہنا تھا، ’’اس طرح کے جرائم کو روکنے کا واحد راستہ یہ بچا ہے کہ مستقبل میں تمام حکومتی دفتروں پر قبضہ کر لیا جائے اور یہ اس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک حکومت کوئی فیصلہ نہیں کر لیتی۔‘‘ نامعلوم مسلح افراد کی طرف سے ہزارہ کمیونٹی کے سات افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور ہلاک ہونے والوں میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل ہیں۔ افغانستان پہلے ہی بدامنی کا شکار ہے لیکن بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کارروائیاں جلتی پر تیل کا کام سکتی ہیں۔
مظاہرین نے سبز رنگ کے کپڑے میں ملبوس ہلاک شدگان کے تابوت اٹھا رکھے تھے اور طالبان مخالف بینروں کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے۔ مظاہرین کا صدارتی ہاؤس کی طرف مارچ کرتے اور نعرے لگاتے ہوئےکہنا تھا، ’’طالبان جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور حکومت ان کا ساتھ دے رہی ہے۔‘‘
افغان صدر اشرف غنی نے ہزارہ افراد کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کروانے کا وعدہ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قندوز پر طالبان کے مختصر قبضے کے بعد سے افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں جنوبی صوبہ زابل میں افغان طالبان اور خود کو داعش سے منسلک کر لینے والے عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان حریف گروپوں میں لڑائی کی وجہ سے امن مذاکرات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور ملک میں مزید انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو نشانہ بنانا اب معمول کا حصہ بن چکا ہے اور انہیں زیادہ تر ان علاقوں میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو افغان طالبان کے زیر کنٹرول ہیں۔