ہلیری کلنٹن کا دورہ افریقہ
6 اگست 2009ہلیری کلنٹن نے اپنے دورےکا آغاز کینیا سے کیا ہے۔ دارالحکومت نیروبی میں صنعت و تجارت کے ایک فورم کا افتتاح کرتے ہوئے کلنٹن نے کہا کہ افریقی ممالک میں ایک ذمہ دار قیادت کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل کینیا پہنچنے پر مسائی قبیلے کی خواتین نے کلنٹن کا روایتی انداز میں استقبال کیا۔
کلنٹن کے اس دورے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ افریقی ممالک کی امریکہ کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے حوالے سے مزید کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ یہ پیش قدمی سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں شروع کی گئی تھی۔ جس کے مطابق چالیس افریقی ممالک بغیر کسٹم ڈیوٹی کے اپنی اشیاء امریکہ برآمد کرسکتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ تجارتی تعلقات کو مزید بڑھانا چاہتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایسی تجارتی پالیسی اختیار کرنے کے پابند ہیں، جس سے تجارت میں اضافہ اور استحکام آئے۔ صدر اوباما پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ امریکہ ایک ساتھی کے طور پر کام کرنا چاہتا ہے نہ کہ محض حکم دینے والے کے طور پر۔ افریقہ کی معاشی ترقی امریکہ کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ ان معاہدوں میں تیل کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ جبکہ مکئی اورکپاس کی برآمد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ان معاہدوں میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
افریقی ماہر معاشیات پہلے ہی سے ترقیاتی امداد سے زیادہ تجارت میں اضافے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ کینیا کے وزیر اعظم رائلا اوڈنگا نے اس موقع پر کہا کہ افریقہ معدنی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود غریب ترین براعظم ہے۔ اوڈنگا مزید کہتے ہیں کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک افریقہ اپنے قدرتی وسائل اور اپنے ماہرین کی صلاحیتوں کا صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا۔ اِس حوالے سے کینیا کے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ابھی تک افریقہ نے ایسا نہیں کیا اور یہ افریقہ کے لئے ایک چیلنج ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے تشدد کی روک تھام کے حوالے سے نیبروبی حکومت کی کوششوں کو سراہا ۔ ہلیری کلنٹن کینیا میں بد عنوانی کے موضوع پر حکومتی عہدیداروں سے بھی بات کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔