'ہم تمام ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں': بھارت
18 ستمبر 2020بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے پارلیمان میں بھارت اور چین کے درمیان موجودہ کشیدگی کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج تمام طرح کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور ملک کے مفاد کے لیے جو بھی بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی بھارت اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چین بھارت کے 38 ہزار مربع کلو میٹر زمین پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''ایوان کو اس بات کا علم ہے کہ لداخ میں چین، بھارت کی تقریبا ً38 ہزار مربع کلومیٹر کی زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ سن 1963 میں ایک سرحدی معاہدے کے تحت پاکستا ن نے بھی غیر قانونی طور پر اپنے زیر انتظام کشمیر کا 5180 مربع کلو میٹر کا علاقہ چین کو سونپ دیا تھا۔ بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے بھی 90 ہزار مربع کلومیٹر پر چین اپنا دعوی کرتا ہے۔''
بھارتی وزیر دفاع نے چین پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سرحد سے متعلق بھارت اور چین کے درمیان اختلافات ہیں لیکن دونوں کے درمیان لائن آف کنٹرول کا ایک معاہدہ بھی ہے، ''جس پر بھارت سختی عمل کرتا ہے جبکہ چین اس کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ''چین کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔'' انہوں بتایا کہ سرحدی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی صورت میں ہی باہمی تعلقات استوار ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لداخ کے حوالے سے بھارت کو ایک سخت چیلنج کا سامنا ضرور ہے تاہم، ''اگر ضرورت پڑی تو بھارت کسی بڑے اور سخت قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریگا۔ ہمارے فوجیوں کے حوصلے پوری طرح بلند ہیں اور بھارتی فوج کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی پوری طرح تیار ہے۔ہم اپنے ملک کا سر جھکنے نہیں دیں گے۔ ہمارے جوان چینی افواج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں۔''
راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ انہیں کئی بار اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ امن کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ''ہم پہلے سے بہت بدل چکے ہیں، پھر بھی ہم پر امن حل کے لیے پر عزم ہیں۔ ہم 130 کروڑ بھارتیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کا سر نہیں جھکنے دیں گے۔ ہم نہ تو کسی کے سامنے سر جھکانے والے ہیں اور نہ ہماری یہ نیت ہے کہ ہمارے سامنے کوئی سر جھکائے۔''
لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان اس برس اپریل کے ماہ میں تنازعہ شروع ہوا تھا اور تب سے سفارتی اور فوجی سطح پر کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی کشیدگی کم نہیں ہوئی ہے۔اس ماہ کے اوائل میں فریقین نے دونوں جانب سے ہوا میں فائرنگ کا بھی اعتراف کیا تھا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں جانب سے 100 سے دو سو راؤنڈ ہوا میں فائرنگ ہوئی جس کا مقصد ایک دوسرے کو مرعوب کرنا تھا۔
اس سے قبل 15 جون کی درمیانی شب وادی گلوان میں دونوں فوجوں کے درمیان تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس بارے میں راجناتھ سنگھ نے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے گلوان میں زبردست بہادری کا سامنا کیا اور چینی فوجیوں کو بھی بھاری نقصان سے دو چار کیا تھا۔''ہمارے فوجیوں میں جس طرح صبر کرنے کا مادہ ہے اسی طرح ان میں شجاعت کا بھی جذبہ ہے۔''
لیکن سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی نے جب یہ سوال پوچھا کہ کہ وادی گلوان تو ماضی میں کبھی بھی متناعہ علاقہ نہیں تھا اور بھارتی فوجی وہاں پیٹرولنگ کیا کرتے تھے۔ ''آخر وہاں ہمارے فوجیوں کو اب پیٹرولنگ کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اسی طرح بھارتی فوج پیونگانگ جھیل میں فنگر آٹھ تک گشت کرتی تھی تو پھر اب اسے فنگرچار تک محدود کیوں کر دیا گیا ہے؟
اس پر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کوئی واضح بات کرنے کے بجائے مبہم سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایل اے سی پر لڑائی کی اہم وجہ یہی ہے۔''پیٹرولنگ کا روایتی طریقہ کار بالکل واضح ہے اور دنیا کی کوئی بھی طاقت بھارتی فوجیوں کو پیٹرولنگ سے نہیں روک سکتی۔ ہمارے فوجیوں نے اسی کے لیے تو قربانیاں دی ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔''
کانگریس پارٹی کے ایک اور رہنما نے جب یہ سوال پوچھا کہ کیا سرحد پر جو پوزیشن پہلے تھی وہ بحال ہو جائے گی کیا حکومت اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی؟ اس پر بھی راجناتھ سنگھ نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت کا موقف واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس بارے میں ہر سوال کا جواب پبلک نہیں کیا جا سکتا۔
ایوان بالا کے چیئرمین وینکیا نائیڈو نے وزیر دفاع سے کہا کہ تمام ارکان کو ملک کی سالمیت اور اس کے تحفظ پر تشویش ہے اس لیے وزیر دفاع کو چاہیے کہ وہ اراکین کے ساتھ اپنی نجی میٹنگ میں ان کی تشویشات کا ازالہ کریں۔