ہم جنس پرست مہاجرین کا طبی جائزہ غیر قانونی ہے، یورپی عدالت
26 جنوری 2018سیاسی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن اپنی پناہ کی درخواستوں میں ترک وطن کی وجوہات اور اپنے آبائی وطنوں میں انہیں درپیش مسائل کے حوالے سے مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ قدامت پسند معاشروں سے یورپ آنے والے کئی تارکین وطن ہم جنس پرست ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اس بنیاد پر اپنے وطنوں میں جان کو خطرہ لاحق ہونے کو جواز بنا کر یورپی ممالک میں پناہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے والے حکام اور ادارے ایسے دعووں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کیس کا مفصل جائزہ لیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ’پناہ کے نئے یورپی قوانین جون میں تیار ہو جائیں گے‘
مزید پڑھیے: جرمنی سے نکالے گئے پاکستانی واپس اسلام آباد پہنچ گئے
یورپی عدالت انصاف میں ایک ایسا ہی مقدمہ تھا جس میں عدلیہ کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ ہنگری کے حکام کی جانب سے ہم جنس پرستی کا دعویٰ کرنے والے ایک تارک وطن کے جنسی رجحانات کے بارے میں جاننے کے لیے کیا گیا معائنہ درست تھا یا نہیں۔
اس بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے یورپی عدالت انصاف کا کہنا تھا کہ ہنگری کے حکام کی جانب سے نائجیرین تارک وطن کا معائنہ کرنا اس کی نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف تھا۔ فیصلے میں کہا گیا، ’’جنسی رجحانات کا جائزہ لینے کے لیے اس قسم کا طبی معائنہ کرنا تارک وطن کی نجی زندگی میں غیر قانونی اور بے جا مداخلت ہے۔‘‘
اس نائجیرین شہری نے اپریل سن 2015 میں ہنگری میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی۔ پناہ کی درخواست میں ترک وطن کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ ہم جنس پرست ہونے کے باعث آبائی وطن میں اسے ظلم اور جبر کا سامنا تھا۔
نائجیریا کے قدامت پسند معاشرے میں ہم جنس پرستوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سن 2014 میں منظور کیے گئے ایک قانون میں ہم جنس پرستوں کے خلاف مزید سخت اقدامات کیے گئے تھے۔
اس کی پناہ کی درخواست پر فیصلہ کرنے سے قبل ہنگری میں حکام نے اس کے جنسی رجحانات کے بارے میں جاننے کے لیے طبی اور نفسیاتی معائنہ کرایا، جس کے بعد اس کی پناہ کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی تھی کہ طبی معائنے میں یہ تصدیق نہیں ہو پائی کہ وہ واقعی ہم جنس پرست ہے۔
اس تارک وطن نے حکام کے اس فیصلے کے خلاف ہنگری کی عدالت سے رجوع بھی کیا تھا تاہم وہاں بھی اس کی پناہ کی درخواست پر پہلے سے سنائے گئے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا۔
بعد ازاں اس شخص نے یورپی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے اپیل کی تھی کہ ہنگری کے حکام کی جانب سے کیا گیا نفسیاتی معائنہ نہ صرف اس کی نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف تھا بلکہ ایسے جائزوں کی مدد سے اس کے جنسی رجحانات کے بارے میں بھی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ یورپی عدالت انصاف نے اس کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے جنسی رجحانات کے بارے میں طبی جائزے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیے: 2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟
مزید پڑھیے: جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟