ہم جنس پسند مسلمان، معاشرتی کشمکش میں الجھے ہوئے
5 جولائی 2019ایسے ہی ایک تھائی مسلمان ہم جنس پسند مصور سماک قاسم ہیں، انہیں شدید معاشرتی کشمکش اور مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اپنے فنِ مصوری کو ہم جنس پسندی کا تاثر ابھارنے کے لیے پوری طرح استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ خاص طورپر انتشار کے شکار جنوبی تھائی لینڈ کے علاقے میں ہم جنس پسندوں کی مشکل زندگی کو اجاگر کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جنوبی تھائی لینڈ میں مسلمان علیحدگی پسند اپنے مسلح تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں مسلمان ہم جنس پسندوں کو خاص طور پر اپنی جنسی پہچان کو چھپا کر رکھنا ہوتا ہے۔ یہی وہ کشمکش ہے، جس کو سماک قاسم اپنے فن میں پیش کرنے کی کوشش میں ہیں۔
سماک قاسم کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی اُن کی ایسی ہی شناخت ہے جیسے وہ مسلمان ہیں۔ تھائی آرٹسٹ کا مزید کہنا ہے کہ بیشتر ہم جنس پسند مسلمانوں اس شناخت کی وجہ سے مذہب، خاندان اور معاشرتی کشمکش اور اختلاف کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ بحثیت مسلمان مذہبی اور معاشرتی توقعات کچھ اور خیال کی جاتی ہیں۔
تھائی آرٹسٹ سماک قاسم کے فن پاروں کی نمائش بنکاک کے آرٹ بیئنالے میں منعقد ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے فن پارے چین کے خصوصی انتظامی اختیارات کے حامل علاقے ہانگ کانگ کی مشہور زمانہ چیانگ مائی گیلری میں نمائش کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں۔
سماک کے مطابق انہوں نے اپنے مسلمان معاشرے میں ہم جنس پسندوں کی اُس دہری زندگیوں کو پیش کیا ہے جس کو وہ بہ امر مجبوری اپنائے ہوئے ہیں۔ سماک کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی مسلمان ہم جنس پسند اپنی جان کے تحفظ کے لیے بھی اپنی پہچان کو چھپائے ہوئے ہیں کیونکہ سخت عقیدے کے مسمانوں کا خوف جنوبی تھائی لینڈ میں پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب تھائی حکومت نے سول پارٹنر شپ کا قانون منظور کر چکی ہے اور اس کے تحت ہم جنس جوڑوں کی پارٹنرشپ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ نئی تھائی پارلیمنٹ میں ہم جنس پسند کمیونٹی کے چار افراد رکن بھی بنے ہیں۔
تھائی لینڈ کی اکثریتی آبادی بدھ مت کی ماننے والی ہے۔ اس ملک میں ہم جنسی پسندی کے خلاف امتیازی سلوک اور بیزاری کی کھلی ابتدا سن 1956 سے شروع ہوئی تھی۔