’’ہم سب جرمنی ہیں‘‘، جرمن صدر کا مسلمانوں سے خطاب
14 جنوری 2015گزشتہ روز جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والی اسلام کانفرنس میں بنیادی طور پر مسلمانوں کے سماجی مسائل اور مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود پر گفتگو ہونا تھی لیکن پیرس حملوں اور جرمنی میں ابھر کر سامنے آنے والی مسلم مخالف تحریک پیگیڈا کی وجہ سے ان موضوعات پر کم ہی بات ہو سکی۔ اس کانفرنس میں شریک مسلمان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور وہ پیرس حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
جرمنی میں اسلام کے موضوع پر ہونے والا یہ اجتماع ریاست اور مسلمانوں کے مابین مکالمت کا مرکزی ذریعہ ہے۔ ’اسلام کانفرنس‘ کا سلسلہ سابق جرمن وزیر داخلہ وولفگانگ شوئبلے کے ایماء پر 2006ء میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ پیش رفت برلن حکومت اور مذہبی انجمنوں کے مابین تعاون کو فروغ دینے کی غرض سے شروع کی گئی تھی۔
دوسری جانب گزشتہ روز ہی جرمنی کے دارالحکومت برلن میں مسلمانوں کے حق میں ایک ریلی نکالی گئی، جس میں دس ہزار کے قریب شہریوں، مذہبی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے شرکت کی۔ اس ریلی میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور جرمن صدر یوآخم گاؤک بھی شریک تھے۔ اس ریلی کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کیا گیا جبکہ پیرس حملوں کی مذمت بھی کی گئی۔ جرمن صدر نے اپنی تقریر جرمنی میں آباد تقریباﹰ چالیس لاکھ مسلمانوں کو حوصلہ دینے کے لیے استعمال کی۔
جرمن مسلم کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہم سب جرمنی ہیں۔ ہم مختلف سیاسی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر رکھنے والے ڈیموکریٹس ہیں، ہم وہ ہیں، جو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے، ہم وہ ہیں، جو اتحاد، انصاف اور آزادی میں زندگی جینا چاہتے ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے حق میں نکالی جانے والی اس ریلی سے ایک روز پہلے مسلم مخالف ریلی کا انعقاد ہوا تھا، جس میں تقریباﹰ پچیس ہزار جرمنوں نے شرکت کی تھی۔ اس کے جواب میں جرمن صدر کا کہنا تھا، ’’مسلمانوں کی وسیع اکثریت خود کو آزاد جرمن معاشرے کا حصہ سمجھتی ہے جبکہ جرمنی امیگریشن کے ذریعے مذہبی لحاظ سے، ثقافتی اور ذہنی طور پر زیادہ متنوع ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
برلن میں گزشتہ روز نکالی گئی اس ریلی کا اہتمام جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کی طرف سے کیا گیا تھا۔