’’ہم غربت دور کر دیں گے‘‘!
30 جولائی 2008جو دس سالہ اویس ایک ہفتے پہلے تک سکول جایا کرتا تھا آج ایک موٹر سائیکل ورکشاپ میں کھڑا ہے۔
جس دن پاکستان میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت چھیاسی روپے طے ہوئی، ٹھیک اسی دن اویس کی دنیا بدل گئی کیوں کہ یہی سکول میں اس کا آخری دن تھا۔
نجانے نو منتخب وزیراعظم گیلانی صاحب کے دو لفظوں پر مبنی کے ایک حکم نامے نے کتنی زندگیوں کے رخ بدلے ہوں گے، کتنے اویس سکول چھوڑ کر ورکشاپوں میں گئے ہوں گے، اور کتنے لوگوں نے خود کشی کے بارے میں سوچا ہو گا؟
اویس کے گھر میں بمشکل دو وقت سالن پکتا ہے اور وہ بھی کبھی گھی کے ساتھ اور کبھی بغیر گھی کے۔ اویس کے والد محمد ارشد کا کہنا ہے کہ وہ اس آسمان کو چھوتی مہنگائی میں گھر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ ’’اویس اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے، لہذا اسی کو کرنا ہوگا تاکہ گھر کے اخراجات چل سکیں۔‘‘
وہ عمر جس میں بچے گلیوں میں دوڑیں لگاتے ہیں، بارش کے پانی میں نہاتے ہیں اور کاغذ کی کشتیاں چلاتے ہیں، سارا سارا دن کھیل کے میدان میں گُذارتے ہیں، اسی عمر میں اویس کو کام کرنا ہے، گھر چلانا ہے۔ غربت نے اویس کا بچپن چھین لیا، وہ بڑا ہوگیا ہے!
اویس کے باقی دوست ابھی بچے ہی ہیں لیکن حالات کے ہاتھوں مجبور اور بے بس اویس کی عملی زندگی شروع ہو چکی ہے۔
پاکستان میں اویس جیسے بچوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں نوے لاکھ بچے غربت کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف کروڑ پتی پاکستانی حکمرانوں کے بچے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، ائیر کنڈیشن گاڑیوں میں بیٹھ کر انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، یورپ اور امریکہ میں اپنی چھٹیاں گزارتے ہیں، دبئی میں شاپنگ کرتے ہیں، لندن اور واشنگٹن کی یونیورسٹیوں میں ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، اور وطن واپس پہنچ کر ان میں سے کئی ایک یا تو قومی اسمبلی یا پھر صوبائی اسمبلیوں کے رکن بن جاتے ہیں، او ر بعض سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں، کوئی وزارت سنبھالتے ہیں یا پھر کسی سیاسی جماعت کی صدارت سنبھال کر یہ علان کرتے ہیں" ہم غربت دور کر دیں گے"!