میں نے خود ایک دیہی علاقے کی عورت کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، ''اچھی غذا اور توانائی کی ضرورت تو مردوں اور لڑکوں کو ہوتی ہے تاکہ لڑائی کے قابل تو بن سکیں۔ خواتین تو گھر میں ہوتی ہیں، اچھا کھانا کھا کر کیا کریں گی؟‘‘
ہم ان الفاظ کو کسی عورت کے جاہلانہ خیالات کہہ سکتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی عام معاشی حقیقت ہے۔ دیہی علاقوں کے سرکاری ہسپتال کا کبھی جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ملک کی آبادی، جو زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے، وہ کس قدر خستہ حال زندگی گزار رہی ہے۔
یہاں محض ایک صنف کی بات نہیں ہو رہی، یہاں پوری آبادی کی بات ہو رہی ہے۔ ایک طرف گھر کے مرد زمینوں کے تنازعات میں مارا ماری کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف کا عالم یہ ہے کہ خواتین بار بار زچگی کے عمل سے گزر کر بدحالی کی شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔
غذائی توانائی کی کمی کی وجہ سے یہ زچہ کبھی کبھار تو ہسپتال کی چارپائی پر دم توڑ دیتی ہے اور پیچھے غذائیت سے محروم بچوں کا ایک لاوارث انبار چھوڑ جاتی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، بہت سارے گھروں میں خواتین پر بیٹے جنم دینے کا معاشرتی اور خاندانی دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بچے پیدا کرنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں رہتا۔ بیٹا جنم دینے کا سیدھا سادہ مطلب ہوتا ہے کہ ایک معاشی مدد گار پیدا کیا جائے۔ اسی خواہش کی آڑ میں مانع حمل اقدامات کو گناہ بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔
مانع حمل اقدامات کے استعمال پر ایک دو ورکشاپ کروا کے حکومت کو لگتا ہے کہ اس نے تو اپنے طور پر ساری کوششیں کر لی ہیں مگر عوام ہی اتنے ''جاہل‘‘ ہیں کہ کوئی بات اس کے پلے نہیں پڑتی۔ معذرت کے ساتھ عرض کروں گی کہ سماجی حقائق سے نمٹنا اتنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہر معاشرے کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں اور انہی طور طریقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عام لوگوں کو اپنی روِش سے ہٹانا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ اس پورے عمل میں وسائل کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں کہ جب یہ ملک کبھی پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا تو آبادی میں اضافے کے معاملے میں بہت کم پیشرفت ہوئی کیونکہ توجہ صرف مانع حمل پر تھی۔ جب سے وہ ایک الگ ملک بنا، تب سے وہاں مجموعی صحت پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ خواتین کی ملازمت کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔
لہذا اب بنگلہ دیش میں پیدائش کی شرح فی خاتون دو ہے جبکہ پاکستان کی یہ شرح 3.5 کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی حکمت عملی میں مردوں کو شامل کیا گیا، جیسے کہ ہمیں پتہ ہے کہ اس پورے خطے کی خواتین کی معاشرے میں فیصلہ سازی انتہائی محدود ہوتی ہے۔ لہذا بورڈ میں مردوں کا ہونا اور مشترکہ باخبر انتخاب کو فروغ دینا ایک اہم اقدام ثابت ہوا ہے۔
اور جہاں تک رہی گناہ اور ثواب کی بات تو ایران کو ہی دیکھ لیں کہ 1988ء اور 1996ء کے درمیان حکام نے فیملی پلاننگ مہم شروع کرنے کے بعد ایک اوسطاﹰ خاندان 5.2 سے کم ہو کر 2.6 بچوں تک رہ گیا۔ ایران نے 18 سال سے کم عمر خواتین یا 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کے حمل کی حوصلہ شکنی کی۔ ساتھ ہی ساتھ ہر دو حمل کے بیچ تین سے چار سال کے وقفے کی حوصلہ افزائی کی۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ کورونا کے حالیہ وباء کی بات کی جائے تو اس دوران جہاں وسائل میں بھرپور کمی آئی ہے، وہاں آبادی میں مزید اضافے کے بھی پورے پورے خدشات موجود ہیں۔ ساتھ ساتھ روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں اناج کی ترسیل کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ پاکستان بھی یوکرینی گندم کا ایک بڑا خریدار ہے اور اس وقت اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔
گزشتہ ستر برسوں پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ ہم نے بچے تو پیدا کیے ہیں لیکن اناج کی پیداوار میں خودکفیل نہیں ہو سکے۔ ایک طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے دوسری طرف گندم کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔
پاکستانی معاشرتی رویے اور روایات جو بھی ہوں، آبادی کے اعتبار سے وہ انفرادی نہیں ہیں۔ اگر انفرادی ہوتے تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ فیملی پلاننگ جیسے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے جہاں تحقیق کی بے حد ضرورت ہے، وہاں ہمارے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر سیکھیں نہیں تو کم از کم کبھی کبھی یہ سوچ لیا کریں کہ کیا ہم عمر میں اپنے سے چھوٹے ملک بنگلہ دیش اور اپنے سے زیادہ قدامت پسند ملک ایران سے بھی گئے گزرے ہیں؟ یا چلو اگر بچے پیدا ہی کرنے ہیں تو پھر یہ دیکھ لیں کہ گندم کون پیدا کرے گا؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔