1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارے ڈرامے اور خواتین

26 ستمبر 2024

ہمارے ڈراموں کے مرکزی خیال اور مندرجات میں سب سے اہم موضوع خواتین ہوتی ہیں۔ اسی لیے ڈراموں کو 'خواتین کی انٹرٹینمنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ غیر محسوس طریقے سے خواتین کے کردار کو جھگڑالو دکھانے سے آگے نہیں بڑھ رہے۔

https://p.dw.com/p/4l5fd
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

ٹی وی ڈرامے کا ہماری تفریحی صنعت میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ 'پی ٹی وی‘ کے کلاسیکل دور سے لے کر آج کے نجی ٹی وی چینلوں تک ہمیں مختلف نہج پر ہی سہی، لیکن ڈراموں کا اپنا ایک اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 'پی ٹی وی‘ کے سنہرے دور کی روایت پسندی اور مشرقی روایات کی پاس داری اب ذرا کم کم دکھائی دیتی ہے۔

 وجہ وہی ہے کہ زمانہ بدلتا ہے اور بدلتے زمانے کے ساتھ ناظرین کے مسائل اور ان کی پسند و ناپسند بھی بدلتی رہتی ہے، لیکن فی زمانہ ان ڈراموں میں جو مواد یا مرکزی خیال دکھائے جا رہے ہیں، وہ کسی نہ کسی خاص نوعیت کے پروپیگنڈے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ جن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی جگہ سے اسپانسر کیے جاتے ہیں۔ تا کہ سماج کو من چاہے طریقے سے ڈھالا جا سکے۔ کیوں کہ جو ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے، وہی کل ہمارے ارد گرد حقیقت میں رونما بھی ہونے لگتا ہے۔

ہمارے ڈراموں اور ان کے مرکزی کردار یا موضوعات کسی نہ کسی طرح خواتین یا لڑکیوں ہی کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے موضوعات ایک 'لو اسٹوری‘ یا کوئی گھریلو اور عام سماجی الجھن ہوتی تھی، تو آج لواسٹوری سے زیادہ کثیر الجہت محبتوں کے درمیان گردش کرتی ہے۔

پہلے ڈرامے کے مرکزی کرداروں کا ہنسی خوشی رہنا یا ہیرو اور ہیروئین کی شادی ہو جانا اختتام ہوتا تھا تو آج شادی کے بعد کے تنازعات اور مختلف انواع کی ایسی محبتیں ان کا مرکز بن چکی ہیں کہ جن کے بارے میں سوچ کر ہی طبیعت عجیب سی ہونے لگتی ہے۔ یہی نہیں ان میں خواتین کردار ہی خواتین کی دشمن بنی ہوئی ہوتی ہیں، ان ڈراموں کے مناظر کے مطابق انہیں زندگی میں یا سماج میں کچھ اور کرنے سے زیادہ صرف گھریلو سازشیں اور ایک دوسرے کی لگائی بجھائی ہی کرنی ہوتی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ ان ڈراموں میں صرف رُپے پیسے کی بنیاد پر رشتے بنانے اور بگاڑنے کی ترغیب دی جا رہی ہوتی ہے اور ایسے معیوب خیالات ببانگ دہل ظاہر کیے جا رہے ہوتے ہیں کہ جس کا محور صرف دھن اور دولت ہوتی ہے۔ کہاں پہلے انسانوں اور جذبوں کی اہمیت پر مبنی کہانیاں ہوتی تھیں اور کہاں آج گھروں کے ٹوٹنے اور خواتین کی لڑائیوں میں ہی پوری اسکرین صرف کی جا رہی ہے، جس کوئی حاصل نہیں دکھائی دیتا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بدلتے وقت کے تقاضوں میں اگر ان ڈراموں کے موضوعات تبدیل کرنے تھے تو انہیں تہذیب اور شائستگی کے ساتھ اپنے آج کے سماج اور آج کی لڑکی سے اس طرح جوڑا جاتا اور اس کے گھر کے مسائل اور اس کی زندگی کی تلخیوں پر کچھ روشنی ڈالی جاتی، کہیں حقوق نسواں کے متوازی دوسرے بیانیے پر بات کی جاتی کہ آخر دوسرا نکتہ نظر کیا ہے، خواتین کے حقوق کا 'مخالف‘ سمجھا جانے والا حلقہ آخر کیا چاہتا ہے۔ وہ کون سی بیمار ذہنیت ہے جو گھروں سے لے کر بازاروں اور دفاتر سے لے کر عام زندگی تک خواتین کا استحصال کرتی ہیں؟ لیکن اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اور ہمارے چینلوں کو سستی توجہ حاصل کی گویا لت پڑ چکی ہے۔

ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان ڈراموں کے مرکزی کردار سے لے کر دیگر معاون خواتین کرداروں کو گھریلو سیاست اور لڑائی کے نت نئے گُر ہی سکھاتا ہوا ہی کیوں دکھایا جاتا ہے؟ کیا اس سے خواتین یا سماج کی کوئی خدمت ہو رہی ہے۔ آخر بے باک موضوعات کے نام پر خواتین ہی کو کیوں ایکسپوز کیا جا رہا ہے؟ کیا ان ڈراموں کے ذریعے آج کی خواتین کے مختلف حساس موضوعات کو سلیقے سے عوام تک نہیں پہنچایا جا سکتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ چیخ پکار اور 'طلاق و علیحدگی‘ کے نعرے لگاتے مکالموں سے بھرپور سستی انٹرٹینمنٹ ہی اسکرین پر پیش کی جائے؟ جس سے بلاواسطہ خواتین کے روایتی جھگڑالو تاثر کو نہ صرف تقویت ملے بلکہ پس ماندہ گھرانوں میں خواتین کی چھوٹی سوچوں کی حوصلہ افزائی ہو؟

آج اگر ہم جائزہ لیں تو ہماری ڈراما انڈسٹری اپنے تاب ناک ماضی کے سامنے کافی پست دکھائی دیتی ہے۔ ماضی کے ڈراما نگاروں کی محنت اور لگن کے بجائے موضوعات اور ان کے مندرجات پر خاطر خواہ توجہ دکھائی نہیں دیتی، پہلے کے ڈرامے تفریح اور خواتین کے تئیں ہمارے سماج کے ذہنوں کی گتھیاں سلجھاتے تھے لیکن آج یہ غیر محسوس طریقے سے خواتین کے کردار کو جھگڑالو دکھانے سے آگے نہیں بڑھ رہے اور نہ ہی بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ اس میں لکھنے والوں سے لے کر ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اور چینلز سے لے کر مختلف پروڈکشن ہاﺅسز تک کی غفلت شامل ہے، جس نے ہمارے ڈراموں کو بھیڑ چال کا شکار کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈرامے صحت مند تفریح کے بجائے مختلف 'بیمار رویوں' کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ڈرامے بجائے اپنے ناظرین اور خواتین کی اصلاح کر کے ان کے حقوق کا شعور اجاگر کرنے کے، انہیں منفی کرداروں کے گورکھ دھندے میں الجھا رہے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔