ہمالیہ پر مہم جوئی، اب کہيں زیادہ خطرناک
2 اکتوبر 2022حال ہی میں مہم جوئی کے دوران ہلاک ہونے والی امریکی کوہ پیما ہلیری نیلسن کی موت سے پتا چلتا ہے کہ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ کتنا خطرناک ہے۔ وہاں کے گائیڈز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ایسے میں زیادہ سے زیادہ لوگ اونچائی پر سنسنی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ 49 سالہ نیلسن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 8163 میٹر دنیا کے آٹھویں بلند ترین پہاڑ مناسلو کو سر کرنے کی کوشش کے دوران گر کر مر گئی تھیں۔ بدھ کے روز اس امریکی کوہ پیما کی لاش تلاش کر لی گئی تھی۔
ہمالیہ کی چوٹیاں اعدادوشمار کے آئینے میں
نیپال ہمالیہ کی سب سے مشہور چوٹیوں کا مسکن ہے۔ اس جنوب ایشیائی ملک میں ہمالیہ کی چوٹیوں پر 1950ء سے 2021 ء کے درمیان 1042 اموات ریکارڈ کی گئیں، جن میں سے 405 رواں صدی میں واقع ہوئی ہیں۔ اب تک یہاں ہونے والی ایک تہائی ہلاکتیں برفانی تودے گرنے کی وجہ سے ہوئيں جبکہ اتنی ہی تعداد میں مہم جو ان چوٹیوں سے گر کر ہلاک ہوئے ہیں۔ بہت سے مہم جو بیماری یا آکسیجن کی کمی کے وجہ سے بھی مرے ہیں۔
آسٹریلوی کوہ پیما کے ٹو سر کرنے کی مہم کے دوران گرنے سے ہلاک
سب سے زیادہ ہلاکت خیز چوٹی 8091 میٹر بلند اناپورنا ماسف ہے، جس پر 1950ء کی دہائی سے اب تک 365 مہمات میں 72 اموات ہو چکی ہیں۔ دھولاگیری اور کنچن جنگا نامی دو چوٹیوں پر اموات کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔ ڈھلوانی راستوں اور برفانی تودے گرنے کے خطرے نے پاکستان کے کے ٹو کو 'وحشی پہاڑ‘ کا نام دیا ہے ،جہاں سن 1947 اب تک کم از کم 70 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
سب سے زیادہ اموات دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر ہوتی ہیں، جہاں 1950ء سے2021 ءکے درمیان 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن یہاں مہم جوئی کے لیے آنے والوں کی بہت زیادہ تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اموات کی شرح نسبتاﹰکم ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش میں مزید تین کوہ پیما ہلاک
ہمالیہ کو درپیش خطرات
سن 2019 ء میں کی جانے والی ایک تحقیق میں خبردار کیا گیا تھا کہ ہمالیہ کے گلیشیئرز صدی کے آغاز سے قبل کے مقابلے میں دوگنا تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس سال کاربن ڈیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے ایک اور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایورسٹ کی چوٹی کے قریب برف کی اوپری تہ تقریباﹰ 2000 سال پرانی تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گلیشیئرز اس وقت سے 80 گنا زیادہ تیزی سے سکڑ رہا تھا۔
اگرچہ ہمالیہ میں آب و ہوا کی تبدیلی اور کوہ پیمائی کے خطرات کو دیکھتے ہوئے وسیع پیمانے پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے لیکن کوہ پیماؤں نے وہاں موجود برفانی ڈھلوانوں پر پانی کے بہاؤ اور برفانی جھیلوں کی تشکیل کی اطلاعات دی ہیں۔ انتہائی تجربہ کار 47 سالہ نیپالی کوہ پیما سانو شیرپا دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں کو دو بار سر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''پتلی برف اور ننگی چٹانوں پر کوہ پیمائی کے لیے مخصوص برفانی جوتے پہننا خاص طور پر خطرناک ہوسکتا ہے۔ برف کی تہہ بہت پتلی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ آنے والی چند نسلوں میں یہ برفانی پہاڑ محض چٹانیں بن جائیں گے۔‘‘ گلیشیئروں کی غیر متوقع صورتحال میں برفانی تودے گرنےکا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کوپیمائی کے دوران اموات کا ایک بڑا سبب ہر سال نیپال، پاکستان اور تبت کا رخ کرنے والے سینکڑوں ایسے ناتجربہ کار افراد بھی ہیں جو مناسب تیاری نا ہونے کے باجود جوق در جوق ہمالیہ کی ان چوٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔
تیزی سے بدلتی کوہ پیمائی کی صنعت
کوہ پیمائی کی صنعت کی تیز رفتار ترقی نے کاروبار کے ليے کمپنیوں کے درمیان سخت مقابلےکی فضا قائم کر دی ہے، جس سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ کچھ حفاظتی انتظامات پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ نیپال نے اس سال مانسلو چوٹی کے لیے مہم جوئی کے 404 پرمٹ جاری کیے جو معمول سے دوگنا ہیں۔ پاکستان نے کے ٹو کے لیے کوہ پیمائی کے تقریباﹰ 200 اجازت نامے جاری کیے جو معمول سے دوگنا ہیں۔ 2019 ء میں ایورسٹ پر بڑے پیمانے پر ٹریفک جام نے کوہ پیما ٹیموں کو منجمد کر دینے والے درجہ حرارت میں گھنٹوں انتظار کرنے پر مجبور کیا ، جس سے آکسیجن کی مقدار میں کمی واقع ہوئی جو بیماری اور تھکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔ ُاس سال ہونے والی 11 اموات میں سے کم از کم چار کی وجہ مہم جو ٹیموں کی بھیڑ کو قرار دیا گیا تھا۔
بہت سی ٹور کمپنیاں اب خطرے کی تشخیص کے ليے ریموٹ سینسنگ کے ليے ڈرون کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں سے متعلق اہم اعداد و شمار کی براہ راست نگرانی کرتی ہیں اور کچھ کوہ پیما جی پی ایس ٹریکر پہنتے ہیں۔ مہم جوئی کی منتظم کمپنیاں زیادہ آکسیجن ذخیرہ کرتی ہیں اور موسم کی رپورٹوں کے معیار میں بہت بہتری آئی ہے۔
ش ر / ع س ( اے ایف پی)