ہمت سے کام لو، گاڑی چلاؤ: سعودی خواتین کی مہم
10 جون 2011اب وہ سوچنے لگی ہیں کہ اگر عوامی مظاہرے اور سیاسی تبدیلوں کا مطالبہ کرنے والے تیونسی اور مصری باشندوں کی مہم حکموانوں کو اقتدار سے دست بردار ہونے پر مجبور کر سکتی ہے تو آخر سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت کیوں نہیں مل سکتی۔
قدامت پسند عرب ریاست سعودی عرب کی عورتوں کے لیے یہ بہترین وقت ہے اپنے بنیادی حقوق منوانے کا۔ وہ اپنی اُس دیرینہ خواہش کو پورا کروانے کی کوشش کرنا چاہتی ہیں جس کا سعودی عورتیں اب تک محض خواب ہی دیکھتی آئی ہیں۔ یعنی گاڑی چلانے کی اجازت کا حصول۔ ایک سال قبل تک سعودی خواتین ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔
33 سالہ شائمہ اسامہ وٹامن ڈی کی سخت کمی کے سبب اکثر علیل رہتی ہیں۔ ہسپتال تک جانے کے لیے انہیں کسی نہ کسی ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک روز انہوں نے اس محتاجی سے تنگ آکر گاڑی کی چابی اُٹھائی اور خود سے ڈرائیو کرنے نکلیں۔ یہ ایک جرات مندانہ قدم تھا، ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورتوں کو پردے میں بند رکھا جاتا ہے، وہاں گاڑی چلانے کی جرات کرنا اعلانیہ نافرمانی تصور کیا جاتا ہے۔ شائمہ اسامہ خود گاڑی چلاتے ہوئے ہسپتال پہنچیں، انہوں نے اپنا معائنہ کروایا اور وٹامن کے ٹیکے لگوا کر جب وہ ہسپتال سے واپس گھر جانے لگیں توراستے میں انہیں پولیس نے روکا اور گرفتار کر لیا تاہم چند گھنٹوں بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
شائمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گاڑی چلانے کی ہمت اس لیے کی کہ انہیں اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی نہیں ہے۔ کوئی ایسا تحریری قانون موجود نہیں ہے جو خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی عائد کرتا ہو۔ تاہم سعودی قانون کے مطابق سعودی شہری ملک کے اندر رہتے ہوئے مقامی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ لائسنس کے ساتھ گاڑی چلا سکتے ہیں۔ ایسے اجازت نامے خواتین کے لیے جاری نہیں کیے جاتے۔ اس طرح انتظامیہ کی طرف سے خواتین کے گاڑی چلانے کے عمل کو موئثر طور پر غیر قانونی بنا دیا گیا ہے۔ شائمہ کے بقول ’ میں نے ایک گہری سانس لی اور گاڑی اسٹارٹ کر کے ہسپتال کی طرف روانا ہو گئی‘۔
سعودی عرب میں ہزاروں لڑکیوں اور خواتین نے فیس بُک کے ذریعے وجود میں آنے والے ایک ایسے گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے جو خواتین کو گاڑی چلانے کا حق دینے کا پُر زور مطالبہ کر رہا ہے اور اس پر لگی پابندی کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔
شائمہ اسامہ کے ساتھ ہونے والے واقعے سے ایک ہفتہ قبل سعودی حکام نے منال الشریف نامی اُس خاتون کو گرفتار کر لیا تھا جس نے ملک کے مشرقی صوبے میں خود گاڑی چلاتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو بنوائی اور اسے یو ٹیوب پر نشر کرتے ہوئے سعودی عرب کی تمام خواتین سے اپیل کی کہ وہ بھی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی چلائیں۔
دریں اثناء منال الشریف کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم ان پر الزام عائد ہے کہ انہوں نے سعودی بادشاہت کو دنیا کے سامنے رسوا کیا ہے اور رائے عامہ کو مشتعل کیا ہے۔ منال الشریف نے گاڑی چلانے کی تربیت امریکہ میں حاصل کی تھی۔
سعودی عرب کے سیاسیات کے پروفیسر، 35 سالہ خالد الداخل کا کہنا ہے کہ اُن کے ملک میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی کا موضوع کم از کم 35 سال سے عوامی سطح پر زیر بحث ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ سعودی عرب میں خواتین نے کار ڈرائیو کی تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرب دنیا میں کچھ عرصے سے پائی جانے والی انقلابی لہر نے سعودی عورتوں کے اندر ایک نئے جوش و جذبے کو ہوا دی ہے‘۔
1990ء میں بھی سعودی عرب میں خواتین نے گاڑی چلانے کی جرات کی تھی تاہم اُس وقت حکومت کی طرف سے سخت کریک ڈاؤن، ایسی خواتین کو ملازمتوں سے برطرف کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے تمام حربے استعمال کیےگئے تھے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان