1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمت نسواں مدد ِخدا

7 مارچ 2021

شازیہ بتول بلوچستان کی با صلاحیت مصورہ ہیں۔ وہ خواتین اور خصوصی افراد کے حقوق کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ تمغہ امتیاز حاصل کرنے والی یہ باہمت خاتون اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اگر انسان چاہیے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔

https://p.dw.com/p/3qDC3
Pakistan | Women's day 2021
تصویر: Privat/Shazia Batool Foundation

شازیہ بتول بلوچستان کی مایہ ناز مصورہ ہیں، جو مصوری میں کئی اعزازات حاصل کرنے کے علاوہ حکومت ِ پاکستان کی جانب سے تمغۂ امتیاز بھی حاصل کر چکی ہیں اور بلوچستان میں خواتین  اور خصوصی افراد کے حقوق کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ مسلسل متحرک ہیں۔

Pakistan | Women's day 2021
تصویر: Privat/Shazia Batool Foundation

کچھ بھی ناممکن نہیں

شازیہ بتول نے ایک نشست میں ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا،''وہ جب محض تین برس کی تھیں تو پولیو کے باعث وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہیں کیونکہ ان کے والدین نے انہیں پولیو ویکسین نہیں لگوائی تھی۔‘‘ شازیہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات والدین کی چھوٹی سی غلطی بچوں کی پوری زندگی متاثر کر دیتی ہے،''ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا مگر وہ خوش نصیب تھیں کہ ان کے والدین ہر دور میں اور ہر مشکل کی گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے رہے اور آج تک جو کامیابیاں انہوں نے حاصل کیں ان کے والدین کا اس میں بہت بڑا کردار ہے۔‘‘

بریکنگ بیریئر وومن

انہوں نے کچھ عرصے قبل ''بریکنگ بیریئر وومن‘‘ کے نام سے ایک آرگنائزیشن  قائم کی، جس کی وہ سربراہ بھی ہیں۔ یہ تنظیم مقامی خواتین کو ملازمت میں معاونت کے علاوہ ان میں خود انحصاری پیدا کرنے اور  وومن امپاوورمنٹ کے لیے کوشاں ہے۔ حال ہی میں بریکنگ بیریئرز  نے ایک ووکیشنل سینٹر کا آغاز بھی کیا ہے۔ اس کا مقصدخاص طور پر ایسی خواتین پر توجہ مرکوز کرنا ہے، جو کسی جسمانی معذوری کا یا دیگر پابندیوں کے باعث گھروں سے باہر نہیں نکل پاتیں۔ ایسی خواتین کو پیٹنگز یا ان کے کسی اور ٹیلنٹ کے ذریعے گھر بیٹھ کر آمدنی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔

Pakistan | Women's day 2021
تصویر: Privat/Shazia Batool Foundation

فائن آرٹس میں ماسٹرز

شازیہ کو تعلیم حاصل کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب تک ان کے والد حیات تھے، وہ انہیں سکول لے جایا کرتے تھے۔ تاہم ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری بھائیوں نے ادا کی۔ بلوچستان یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں بیچلرز کے بعد انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے فائن آرٹس میں ایم اے کیا۔ اس دوران ان کی والدہ ہاسٹل میں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ شازیہ بتاتی ہیں، ''یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ بعض اوقات جب این سی اے کیمپس میں اوپر بلڈنگز تک پہنچنے میں انہیں دشواری کا سامنا ہوتا تو وہ رو دیتی تھیں مگر پھر ایک نئے عزم سے اٹھ کھڑی ہوتیں کہ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔‘‘ 

روزگار کی تلاش میں مسائل

تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت ایک اور بڑا چیلنج تھا۔ پاکستان میں خصوصی افراد کو سب سے زیادہ دشواری کا سامنا جاب کے حصول میں ہوتا ہے۔ اس ملک کا نظام کچھ ایسا ہے کہ جس میں جسمانی طور پر معذور افراد کو قدم قدم پر مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے اور حکومت ان کے حل کی جانب مناسب توجہ بھی نہیں دیتی۔

Pakistan | Women's day 2021
تصویر: Privat/Shazia Batool Foundation

شازیہ بتول نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''وہ سمجھتی ہیں کہ ماضی کی نسبت اب خصوصی افراد کو نسبتاﹰ کم مسائل کا سامنا ہے کیونکہ اب این جی اوز اس حوالے سے کافی متحرک ہیں، جن میں ان کی اپنی آرگنائزیشن بریکنگ بیریئرز وومن بھی شامل ہے۔‘‘ یہ تنظیم نا صرف کسی جسمانی معذوری کا شکار خواتین کو مالی مدد اور ملازمت کی سہولیات فراہم کرتی ہے بلکہ ہم دیگر ضرورت مند خواتین کی بھی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

خواتین کا عالمی دن

شازیہ کی آرگنائزیشن بریکنگ بیریئرز وومن کئی برس سے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع کی مناسبت سے ایونٹس کا انعقاد کرتی ہے۔ 2020 ء میں انہوں نے کوئٹہ میں خواتین کا ایک مقابلہ مصوری کا انعقاد کیا تھا، جس کا عنوان خواتین کے مسائل اور ان سے  متعلق آگاہی تھا۔ اس مقابلے میں بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں کی طالبات اور مقامی خواتین  نے شرکت کی تھی اور اپنی پیٹنگز  کے ذریعے بلوچستان کی خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا تھا۔

 8 مارچ 2021 ء کو اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے شازیہ کی تنظیم پینٹنگز کی ایک نمائش کے علاوہ مصوری کا ایک مقابلہ بھی منعقد کروائے گی۔ اس مقابلے کا عنوان بھی خواتین کے مسائل ہی  ہو گا، جس میں رنگ اور مصوری کا دیگر سامان ان کی جانب سے فراہم کیا جائے گا۔ شازیہ کہتی ہیں،''ان کے خیال میں مصوری کے ذریعے ہم بہتر انداز میں اپنے مسائل کو واضح کر سکتے ہیں خاص طور پر بلوچستان کے حوالے سے، جہاں خواتین کو قدم قدم پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حق کے لیے آواز اٹھانا بہت مشکل ہے۔‘‘

نابینا خواتین کے لیے آرکیسٹرا