اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کا حق حاصل نہیں، مودی
22 جنوری 2015بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ میں ایک خطاب کے دوران مودی کا کہنا تھا، ’’ہمارے ہمسائے ہی میں بچیوں کو عام طور پر ان کی ماؤں کی کوکھ میں ہی قتل کر دیا جاتا ہے اور ہم اس کی تکلیف محسوس ہی نہیں کرتے۔‘‘ مودی کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیں۔‘‘
بھارت میں ابارشن یا حمل ضائع کرانے پر پابندی عائد ہے تاہم یہ دنیا کی دوسری سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے اس ملک میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مختلف سماجی مسائل سے بچنے کے لیے والدین کو جب معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی کوکھ میں پلنے والا بچہ ایک لڑکی ہے تو اکثر اوقات وہ اس حمل کو ضائع کرا دیتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم کی طرف سے شروع کی گئی مہم ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی بڑھاؤ‘‘ کا مقصد دراصل ایک طرف تو بچوں ’چائلڈ سیکس ریشو‘ یا بچیوں اور بچوں کی شرح میں بہتری لانا ہے تو دوسری طرف تعلیم کے لیے جنسی مساوات پیدا کرنا بھی ہے۔ چائلڈ سیکس ریشو کی پیمائش ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں پیدا ہونی والی لڑکیوں کی تعداد کے حساب سے کی جاتی ہے۔
بھارت میں چائلڈ سیکس ریشو 1971ء میں کم ہونا شروع ہوئی تھی جب یہ 964 تھی جبکہ 2011ء میں یہ مزید کم ہو کر 918 رہ گئی تھی۔ 2001ء سے 2011ء کے دوران بھارت کی دو تہائی ریاستوں میں اس نسبت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
برطانوی طبی جریدے ’لینسٹ‘ میں چپھنے والی ایک اسٹڈی کے مطابق 1980ء سے 2010ء کے دوران بھارت میں جان بوجھ کر 12 ملین یا ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیوں کی پیدائش سے قبل ہی حمل ضائع کرا دیا گیا۔
سماجی طبقات میں بٹے بھارتی معاشرے میں بیٹیوں کو مالی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق لڑکیوں کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی شرح دراصل بھارت میں بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات اور خواتین کی اسمگلنگ سمیت کئی طرح کے جرائم کی وجہ بن رہی ہے۔ ایسی ہی ایک قباحت ایسے دیہات جہاں جنسی نسبت کم ہے وہاں ’وائف شیئرنگ‘ یا ایک خاتون ایک سے زائد مردوں کی بیوی بن کر رہنے جیسے واقعات بھی ہیں۔
نریندر مودی کا آج جمعرات 22 جنوری کو کہنا تھا، ’’ہر ایک ہزار بچوں کے لیے ایک ہزار بچیاں پیدا ہونی چاہییں‘‘۔ انہوں نے لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کے رویے کو ’پورے ملک کی ایک نفسیاتی بیماری‘ قرار دیا۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کے دوران خاص طور پر 100 ایسے ڈسٹرکٹس پر توجہ دی جائے گی جہاں چائلڈ سیکس ریشو زیادہ کم ہے۔