ہندو وراثت قانون: اب بیٹیوں کو بھی بیٹے کے برابر حق
12 اگست 2020بھارتی سپریم کورٹ نے منگل 11 اگست کو اپنے اہم ایک اہم فیصلے میں تمام ہندو خواتین کو ماں باپ کی موروثی جائیداد میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی برابر کا حقدار قرار دیا۔ اس سلسلے میں 2005 میں ہی ایک قانون متعارف کروایا گیا تھا اورعدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کسی کے والد اس قانون کے نفاذ سے قبل ہی وفات پا چکے ہوں تو اس صورت میں بھی اس قانون اطلاق ہوگا۔
اس کیس میں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ارون مشرانے فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ''ایک تو بیٹی ہمیشہ بیٹی ہی رہتی ہے۔ لیکن بیٹا اس وقت تک ہی بیٹا رہتا ہے جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے۔ باپ زندہ ہو یا نہ ہو بیٹی تا عمر اپنے باپ کی جائیداد کی برابر کی وارث ہوتی ہے۔ بیٹی کو بھی بیٹے کی طرح مساوی حقوق دیے جانے چاہیں۔ بیٹی زندگی بھر ایک محبت کرنے والی بیٹی رہتی ہے۔''
مرکزی حکومت نے سن 1956 کے ایک پرانے ہندو وراثت قانون میں 2005 میں ترمیم کی تھی اور خواتین کو باپ کی جائیداد میں وراثت کا مساوی حق دیا تھا۔ لیکن ابہام اس بات پر تھا کہ آیا اس قانون کا اطلاق ان کیسز پر بھی ہوتا ہے جن کے باپ 2005 سے پہلے ہی گزر چکے تھے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2016 اور 2018 کے دوران مختلف عدالتوں نے قانون کی اپنی اپنی تشریح کے مطابق الگ الگ فیصلے سنائے تھے اور اسی کی وضاحت کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے ملک کی تمام عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ اس حوالے سے چونکہ اب قانون کو اچھی طرح سے واضح کر دیا گیا ہے اس لیے جن مقدمات میں تاخیر ہوئی ہے ان کی جلد از جلد سماعت کر کے آئندہ چھ ماہ کے اندر فیصلہ صادر کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ کی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چونکہ قانون نے بیٹیوں کو بھی وراثت میں برابری کا حق دیا ہے اس لیے انہیں ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ''اسی لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس حوالے سے تمام زیر التوا مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے اور چھ ماہ کے اندر فیصلے کیے جائیں۔''
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹر نیشنل نے عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کہ خواتین کو مساوی درجہ دینے کی سمت میں یہ ایک اہم قدم ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں والدین کی املاک کے وارث ہونے میں بیٹی کو بھی برابری حق دیا گیا ہے۔ یہ خواتین کے لیے مساوات کو فروغ دینے کی سمت میں ایک اہم ایک قدم ہے۔ خواتین کی سماجی، معاشی اور قانونی سلامتی کے لیے جائیداد کے حقوق بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔''
بھارت میں مذہبی، موروثی اور معاشرتی امور سے متعلق ہندو، مسلم، عیسائی، زرتشت اور یہودیوں جیسے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے الگ الگ پرسنل لاز موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر پرسنل لاء برطانوی راج کے دور کے ہیں۔ حکمراں جماعت بی جے پی اس کے خلاف مہم چلاتی رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لیے علیحدہ علیحدہ قوانین کے بجائے کامن سول کوڈ کی ضرورت ہے جو سب کے لیے یکساں ہو۔
انسانی حقوق کے کارکنان کے ایک حلقے کا بھی یہی مطالبہ ہے اور وہ بھی کامن سول کوڈ کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ مذہبی قوانین کے تحت خواتین کو مساوی حقوق نہیں ملتے اس لیے انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی سلسلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں میں رائج تین طلاق پر نکتہ چینی کی تھی جس کے بعد حکومت نے تین طلاق کے خلاف ایک قانون وضع کیا جس میں اس چلن کو جرائم کے درجے میں شامل کیا گیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کا ایک بڑا حلقہ بہر حال یکساں سول کوڈ کے خلاف ہے۔
صلاح الدین/ دھاروی وید نئی دہلی