ہنگری میں تسلیم شدہ مذاہب سے متعلق متنازعہ قانون
12 اگست 2011ہنگیرین حکومت نے یہ نیا قانون ابھی حال ہی میں منظور کیا تھا اور اس کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ اس قانون کے ذریعے ملک میں 290 کے قریب عقائد کے بے شمار لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔
اس بارے میں ہنگری کے کئی سابقہ، لیکن سرکردہ سیاسی منحرفین نے یورپی یونین کے نام ایک خط بھی لکھا ہے۔ یورپی یونین کی انصاف سے متعلقہ امور کی نگران کمشنر رَیڈنگ اور کونسل آف یورپ کے انسانی حقوق کے کمشنر تھوماس ہامربیرگ کے نام اس کھلے خط میں شکایت کی گئی ہے کہ وزیر اعظم وکٹر اوربان کی حکومت کا منظورکردہ یہ نیا قانون آزادی مذہب کے بنیادی حق کی نفی ہے۔
اس خط کے مطابق ہنگری میں چند روز پہلے تک ریاست کی طرف سے مذاہب کے طور پر باقاعدہ تسلیم شدہ عقائد کی تعداد تین سو سے زائد تھی۔ لیکن اب یہ تعداد کم کر کے صرف 14 کر دی گئی ہے۔
بُوڈاپیسٹ حکومت اب جن عقائد کو باقاعدہ مذاہب تسلیم نہیں کرتی، اُن میں بہت سے اہم مسیحی اور سارے ہی اسلامی فرقے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بدھ مت اور ہندو مت کی تمام ذیلی شاخیں بھی اپنی تسلیم شدہ حیثیت سے محروم ہو گئی ہیں۔
یورپی یونین اور کونسل آف یورپ کے کمشنرز کے نام اس خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بُوڈاپیسٹ حکومت پر اس قانون کی منسوخی کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے یورپی یونین کی رکن کسی ریاست نے آزادی مذہب، قانون کی نظر میں تمام شہریوں کے برابر ہونے اور ریاست کو مذہب سے علیٰحدہ رکھنے کے بنیادی اصولوں کی اتنی کھلی خلاف ورزی کبھی نہیں کی۔
تسلیم شدہ حیثیت سے محروم ہو جانے والے مذاہب کے لوگوں کو اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ خود کو ہنگیرین معاشرے میں یکدم اجنبی محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے سماجی، طبی اور تعلیمی شعبوں میں کام کرنے والے ادارے بھی اب ان مالی مراعات سے محروم ہو جائیں گے، جو انہیں اب تک حاصل تھیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفیٰ