ہنگری میں ریفرنڈم، مسلمانوں کو ’نفرت انگیز رویوں‘ کا سامنا
30 ستمبر 2016تینتیس سالہ ماجا نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہنگری کے لوگ بنیادی طور پر دوستانہ ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں کیا ہوتا جا رہا ہے لیکن اس مخصوص وقت میں کچھ بہت ہی بُرا ہو رہا ہے۔‘‘ ایک بچے کی ماں ماجا نے بتایا کہ ایک مرتبہ جب وہ سائیکل پر جا رہی تھی تو ایک ڈرائیوار نے اسے نیچے گرا دیا اور کہا، ’’تم واپس صحرا میں کیوں نہیں چلی جاتی۔‘‘
مہاجرین کے ساتھ ’برا سلوک‘، ایمنسٹی کی ہنگری پر تنقید
ہنگری: یورپی یونین پناہ گزین کوٹے کے خلاف ریفرنڈم
مہاجرین مخالف پالیسی: ’ہنگری کو یورپی یونین سے نکالا جائے‘
اسی ہفتے ماجا کو ایک پیٹرول اسٹیشن پر دن دیہاڑے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ اپنے کام پر یا اپنے بچے کے اسکول میں ہونے والی میٹنگز میں اپنا ہیڈ اسکارف گاڑی میں ہی چھوڑ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ہر وقت ہی کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔
ہنگری کی شہری ماریہ نیگی بھی مذہب اسلام اختیار کر چکی ہیں۔ وہ اپنے پاکستانی شوہر کے ساتھ مل کر بوڈا پیسٹ میں ایشیائی مصنوعات کی ایک اسٹور چلاتی ہیں۔ انہیں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تیس سالہ ماریہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہمیں نفرت کا سامنا ہے۔ چونکہ میں اسکارف پہنتی ہوں ، اس لیے ٹرین میں ٹکٹ چیکرز ہمیشہ ہی مجھ سے بحث کرتے ہیں۔ جب میں کسی ریستوان میں جاتی ہوں تو لوگ مجھے گھورنے لگ جاتے ہیں۔‘‘
ہنگری کے تمام مسلمانوں کو ایسے سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے لیکن وہاں چالیس ہزار نفوس پر آباد اس اقلیت کے کئی گروپوں کے مطابق حالیہ عرصے میں مسلمانوں سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ کے متعدد ممالک بالخصوص ہنگری میں مسلمانوں سے خوف ناور بیزاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مہاجرت مخالف حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہی عوامی سطح پر ہنگری میں مسلمانوں اور مہاجرین کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔
ہنگری میں اتوار کے دن مہاجرین سے متعلق کرائے جانے والے ریفرنڈم میں عوام حکومت کی پالیسیوں کے حق میں فیصلہ دے سکتی ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کے حالیہ بحران کے نتیجے میں شورش زدہ ملکوں اور خطوں سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس کی خاطر یورپی حکام نے ایک فارمولا بھی تیار کر لیا ہے تاکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کسی بھی یورپی ملک پر کوئی اضافی بوجھ نہ پڑے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔