ہومیوپیتھک علاج گردوں کے مریضوں کے لئے مفید
11 جولائی 2010طبی ماہرین کی کئی سالوں پر محیط تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائی جانے والی ایسی دیرینہ اور خاموش بیماریاں جو سست رفتاری سے لیکن مسلسل بڑھ رہی ہوں، گردوں کو خراب کر دیتی ہیں- ایسی صورتحال کو Kidney Failure یا گردوں کی ناکامی کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب گردے خون سے اضافی مائع مادوں، معدنیات اور فالتو اجزاء کو علیحدہ کر نے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں- اس خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کے لئے Dialysis یا گردوں کی صفائی ہی واحد راستہ رہ جاتی ہے- یہ طریقہ علاج ایلوپیتھی میں بہت عام ہو چکا ہے-
ہومیو پیتھی کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خراب گردوں کا علاج ایلوپیتھک ادویات اور طریقوں سے ممکن نہیں ہے۔ گردوں کی صفائی یا Dialysis کے ذریعے انسانوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی تو جاتی ہے مگر ان کی زندگی محض ان مشینوں کے مرہون منت ہوتی ہے جو اس طریقے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ مشینیں دراصل گردوں کا کام کرتی ہیں، یعنی خون کو ایک خاص نظام کے ذریعے صاف کرتے رہنا، اس میں سے اضافی مائع مادوں، معدنیات اور فالتو مادوں کو الگ کرنا اور باقی ماندہ صحت مند خون کو دوبارہ جسم میں بھیجنا۔
جن مریضوں کے گردے خرابی کی وجہ سے اپنا معمول کا کام انجام نہیں دے سکتے، ان کے خون کو فلٹر کرنے کے لئے ایسی مشینیں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف نہایت مشکل اور پیچیدہ بلکہ خطرناک بھی ہوتا ہے۔ اس میں مشین کو مریض کے دوران خون کے نظام سے جوڑا جاتا ہے، اور پھر یہ خون مشین سے ہوتا ہوا مسلسل مریض کے جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔ یوں مریض کے خون کی بتدریج صفائی کی جاتی ہے۔ جب یہ طریقہ علاج بھی کار آمد ثابت نہ ہو تو ایلوپیتھک ڈاکٹر مریض کو گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن یا پیوند کاری کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ علاج پر خطر بھی ہوتا ہے اور بہت مہنگا، جس کے اخراجات ہر مریض برداشت نہیں کر سکتا۔
ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس مہنگے اور تاحیات جاری رہنے والے طریقہ علاج کے برعکس ہومیوپیتھک میڈیسن میں گردوں کی خرابی کا علاج آسان اور کم مدتی ہوتا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق گردوں کی بیماری کا ہومیوپیتھک علاج اگر بروقت شروع کر دیا جائے تو دو سے پانچ سال کے اندر اندر اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس علاج کی کامیابی کا دارومدار مرض کی شدت پر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہومیوپیتھک گردے کے ٹشوز کو دوبارہ زندہ کرنے اور انسانی جسم کے اس اہم عضو کے اندر قوت مدافعت پیدا کرتی ہیں۔ اس کے سبب گردے آہستہ آہستہ اپنا نارمل فنکشن دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گردوں کی پیوند کاری کے زیادہ تر واقعات میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک عام انسانی جسم کسی دوسرے جسم سے لئے گئے گردے طبی طور پر قبول نہیں کرتا اور مصنوعی یا اجنبی اعضاء کے خلاف مزاحمت کرتا رہتا ہے۔ ایسے مریضوں کو اگر ہومیوپیتھک دوائیں دی جائیں تو ان کا جسم کسی دوسرے انسان کے عطیہ کردہ گردوں کو قبول کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے بعد مریضوں میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو ہومیوپیتھک دوائیں دی جائیں تو ایک تو ان کے گردوں کے خراب ٹشوز بھی دوبارہ ٹھیک ہونے لگتے ہیں اور دوسرے ان کا بلڈ پریشیر اور خون میں شوگر لیول بھی قدرے قابو میں رہتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک