ہیبرون کا قدیمی حصہ یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل
8 جولائی 2017یونیسکو کی ترجمان لوسیا اگلیسیاس نے بتایا کہ ہیبرون کے قدیمی علاقے کو خطرے سے دوچارعلاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کے بقول باقی تفصیلات بعد میں عام کی جائیں گی۔ اس طرح یہ ایک محفوظ علاقہ قرار پایا ہے۔ یونیسکو کے پولینڈ کے دفتر میں ہونے والی ووٹنگ میں اسرائیل سفیر نے احتجاجاً حصہ نہیں لیا تھا۔یروشلم سے متعلق یونیسکو کی متنازعہ قرارداد منظور
فلسطینیوں کی جانب سے اس مقصد کے لیے یونیسکو کو درخواست دی گئی تھی۔ فلسطینوں نے اس اعلان پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور وہ اسے ایک سفارتی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے اس ادارے کا ایک اور غلط اور حاسدانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔
ہیبرون میں تقریباً دو لاکھ فلسطینی اور چند سو یہودی آباد کار رہتے ہیں۔ یونیسکو کے اس فیصلے میں ہیبرون کو ایک اسلامی شہر قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس بارے میں اپنے ابتدائی رد عمل میں اسے اخلاقی توہین سے تعبیر کیا۔ اس بیان میں یونیسکو پر الزام عائد کیا گیا کہ اس فیصلے کے دوران شہر کی یہودی تاریخ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
بائبل کے مطابق ہیبرون میں ہی پیٹری آرک کی قبریں بھی ہیں۔ پیٹری آرک سے مراد حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسحاق کے علاوہ اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب ہیں۔ یہودی اسے پیٹری آرک کا مزار کہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ مقام مسجد ابراہیم ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کے بقول، ’’یہ فیصلہ کسی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ یہ نقصان کا باعث بننے گا۔ اس طرح اُس اعتماد سازی کو بھی دھچکا لگے گا، جو مشرقی وسطٰی امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے فریقین کے مابین ضروری ہے۔‘