یروشلم کے معاملے پر ایردوآن اور پوٹن کی گفتگو
10 دسمبر 2017انقرہ اور ماسکو کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ پیر کے روز انقرہ میں ملاقات کریں گے اور یروشلم کے حوالے سے ٹرمپ کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور اس اعلان کے ردِ عمل میں ممکنہ اقدامات پر گفتگو کریں گے۔
بیروت میں امریکی سفارت خانے کے باہر پرتشدد مظاہرے
قبل ازیں جمعرات سات دسمبر کو دونوں رہنماؤں نے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران اتفاق کیا تھا کہ یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کے مشرق وسطیٰ میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ترکی اور روس نے ٹرمپ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ روسی صدر پوٹن نے ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا تھا۔ تاہم ترک صدر ایردوآن نے ٹرمپ کے اس اقدام پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا تھا اور 13 دسمبر کو وہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر چکے ہیں۔
'اسرائیل دہشت گرد ریاست ہے‘
ایردوآن نے اتوار 10 دسمبر کو اپنے ایک خطاب میں اسرائیل کو ایک ’دہشت گرد ریاست‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ یروشلم سے متعلق ٹرمپ کے اعلان کے خلاف ’تمام تر ذرائع‘ بروئے کار لائیں گے۔
انہوں نے اسرائیل کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے آج اتوار کے روز اپنی ایک تقریر میں کہا، ’’ہم یروشلم کو ایک ایسی ریاست کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے جو بچوں کو قتل کرتی ہے۔‘‘
’ایردوآن دہشت گردوں کے مددگار ہیں‘
ترک صدر کے ان بیانات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے بھی شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے صدر ایردوآن پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا، ’’میں اخلاقیات پر ایسے شخص سے سبق نہں لوں گا جو کُرد عوام پر انہی کے آبائی گھروں میں بم برسا رہا ہے، جو صحافیوں کو قید اور ایران جیسی ریاست کی مدد کر رہا ہے۔‘‘
دونوں رہنماؤں کے مابین تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔