یمن: حوثی باغیوں کی جنگ بندی کی پیشکش کا خیر مقدم
22 ستمبر 2019نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پیشکش سے ملک میں جاری تباہ کن جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گرفتھس نے کہا، ''حوثی باغیوں کی طرف سے یہ پیشکش جنگ بندی کی خواہش کا واضع پیغام ہو سکتی ہے۔‘‘
یمن کے حوثی باغيوں نے جمعے کو سعودی سرزمين پر اپنے حملے بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا، ''جنگ کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘ المصریہ ٹيلی وژن پر نشر کی گئی تقریر میں حوثی باغيوں کی سياسی کونسل کے سربراہ مہدی المشعت نے کہا کہ حملے بند کرنے کا مقصد يمن ميں قيام امن ہے۔ ان کے بقول فريقين کے درمیان مذاکرات سے قومی سطح پر مصالحت ممکن ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے تنازع کے سیاسی حل کی خواہش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور تشدد میں کمی اور غیر ضروری بیان بازی سے پرہیز کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔
پچھلے ہفتے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد وہاں سے تیل کی پیداوار میں کمی آئی ہے اور خام تيل کی عالمی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔
ان حملوں کی ذمہ داری حوثی باغیوں نے قبول کی تھی، لیکن امریکا اور سعودی عرب نے ایران کو مورد الزام ٹہرایا ہے۔ ایران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
ادھر امریکا نے سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد وہاں مزید فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ اگر تفتيش سے يہ ثابت ہو گيا کہ تيل سے متعلق تنصيبات پر حاليہ حملے ايرانی سرزمين سے کيے گئے، تو اسے ايک جنگی اقدام سمجھا جائے گا۔ تاہم سعودی وزير خارجہ عادل الجبير نے ہفتے کی رات امريکی نشرياتی ادارے سی اين اين کو انٹرويو میں کہا کہ رياض حکومت اس مسئلے کا پر امن حل چاہتی ہے۔ ان کے بقول حملوں ميں جو ڈرون اور ميزائل استعمال ہوئے وہ ايرانی ساخت کے تھے اور اس ليے سعودی حکومت ايران کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔
يمن کی پانچ سالہ جنگ ميں ہزارہا افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ لاکھوں کو قحط کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ''یمن کی جنگ اس دور کا بد ترين انسانی الميہ بن چکی ہے۔‘‘