یمن میں ابتر حالات، ایک مہینے میں 100 ہلاکتیں
23 مارچ 2011گریگری جانسن کا تعلق پرنسٹن یونیورسٹی سے ہے اور وہ بین الاقوامی سطح پر یمن کے امور کی مہارت رکھنے والے ممتاز مبصرین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’احتجاجی تحریک میں شامل ہونے والوں کی تعداد تسلسل کے ساتھ بڑھتی چلی گئی ہے۔ اِس تحریک میں جنوبی یمن کے علٰیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ شمالی یمن کے باغی، دیگر علاقوں کے قبائل، طلبہ اور اب کچھ دنوں سے حکمران جماعت اور فوج کے ارکان بھی شامل ہیں‘۔
سرپرستی کا ایک سوچا سمجھا نظام
جانسن کہتے ہیں کہ یمن کا ہوشیار آمر اپنے سرپرستی کے ایک سوچے سمجھے نظام کی بدولت ہی اتنے طویل عرصے تک برسرِ اقتدار رہ سکا ہے۔ سالہا سال تک صالح نے اپنے اندرونی حریفوں کو بڑی چالاکی سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا ہے۔ جانسن کے بقول ’بجائے اِس کے کہ وہ اپنی قوتیں اور اپنی توجہ اُس پر مرکوز کرتے، اُلٹا وہ اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی الجھائے رکھنے میں کامیاب رہا’۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بالکل وہی ہے، جس کا صالح کو گزشتہ کئی برسوں کے دوران خدشہ رہا ہے کہ ’اُس کے دشمنوں نے محدود مقاصد کا حامل ایک عارضی اتحاد تشکیل دے دیا ہے اور اب صالح کو اپنا سیاسی کیریئر بچانے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی‘۔
الہام مانیہ مصر میں پیدا ہوئیں، آج کل اُن کے پاس یمن کی شہریت ہے اور وہ زیورخ یونیورسٹی میں سیاسی علوم پڑھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب 1978ء میں علی عبداللہ برسرِ اقتدار آئے تو کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اتنا عرصہ حکومت میں رہ سکیں گے۔ عام خیال یہی تھا کہ وہ چند ہی مہینے اقتدار میں رہیں گے اور پھر معزول یا قتل کر دیے جائیں گے‘۔ تاہم صالح نے ہوشیاری کے ساتھ اپنے قریبی عزیزوں کو اہم عہدوں پر بٹھا دیا اور اپنے حریفوں کو پیسہ دے کر چُپ کرا دیا۔
اب صالح کے پاس کوئی پیسہ نہیں رہا
1978ء سے جنوبی یمن اور دونوں یمنی ریاستوں کے اتحاد کے بعد 1990ء سے پورے یمن پر حکمرانی کرنے والے صالح کے پاس اب وسائل ختم ہو چکے ہیں۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اب اُن کے پاس پیسے کی کمی ہے۔ ملکی بجٹ کا 75 فیصد معدنی تیل کی پیداوار سے آتا تھا لیکن تیل کی پیداوار گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ پھر آبادی بڑھنے سے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور بیروزگاری کی شرح تقریباً 35 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ یہی وہ نازک حالات ہیں، جن کے پیشِ نظر اب خاص طور پر نوجوان نسل بغاوت پر آمادہ ہو چکی ہے۔
سابقہ برطانوی نو آبادی یمن کثیرالجہتی مسائل کا شکار ہے۔ شمالی یمن میں سعودی عرب کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب شیعہ حوثی قبیلہ گزشتہ کئی برسوں سے صنعاء کی مرکزی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہے جبکہ صالح کا تعلق حوثی کے ایک کٹر حریف قبیلے سے ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مغربی دُنیا کی حمایت
صالح کئی برسوں سے حوثی قبیلے کو القاعدہ کا ہمدرد قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مغربی دُنیا کی مالی امداد حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب حوثی قبیلے کو ایران کا آلہء کار سمجھتے ہوئے صالح کے حق میں یمن میں مداخلت کر رہا ہے۔
مزید برآں صالح کو ملک کے جنوب میں ایک علٰیحدگی پسند تحریک کا بھی سامنا ہے۔ 1990ء میں یمن کے اتحاد کے چار سال بعد 1994ء میں اِس ملک میں خانہ جنگی ہوئی، جس کے بعد سے جنوبی یمن کے باشندے مسلسل یہ سمجھتے چلے آ رہے ہیں کہ اُنہیں استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یمن ایک ناکام ریاست؟
یمن میں خاص طور پر سرگرم القاعدہ گروپ، بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی اور کمزور ریاستی ڈھانچوں کی وجہ سے یمن کے ایک ناکام ریاست بننے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یمن میں اندازاً تقریباً 50 ملین ہتھیاروں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک گویا بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔
ماہرین کی رائے میں اب کسی نہ کسی طرح کا عارضی سیاسی نظام وجود میں آئے گا، جو کامیاب بھی ہو سکتا ہے اور ناکام بھی اور اِس کا انحصار صدر صالح پر ہو گا۔ تاہم یہ امکان کم ہی ہے کہ موجودہ احتجاجی تحریک میں شامل طلبہ، شمالی یمن کے باغی اور جنوبی یمن کے علٰیحدگی پسند مل کر کوئی کامیاب حکومتی اتحاد تشکیل دے سکیں گے۔
جائزہ: ڈومینیک پیٹرز / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق