یمن میں بین الاقوامی تحقيقات کرائی جائيں، اقوام متحدہ
27 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کی طرف سے حاصل کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ ’’تمام فریقوں کی طرف سے یمن میں انٹرنیشنل ہیومینیٹیرین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی رپورٹوں کی تحقیقات اور اس طرح کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے‘‘ ایک انکوئری کرائے۔
پینل کے مطابق اس نے اتحادیوں کی طرف سے سویلین اہداف کو نشانہ بنانے کے شواہد اکٹھے کیے ہیں۔ ان اہداف میں مہاجرین کے کیمپ، شادیوں کی تقریبات، بسیں، رہائشی علاقے، طبی سہولیات، مساجد، مارکیٹیں، فیکٹریاں، خوراک ذخیرہ کرنے والے گودام اور ایئر پورٹس شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’بہت سے حملوں کے دوران کئی سویلین اہداف پر کئی کئی مرتبہ بمباری کی گئی۔‘‘
یمنی حکومت کی مدد اور ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی سربراہی میں اتحادی ممالک نے یمن میں حملوں کا آغاز گزشتہ برس مارچ میں کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت سے اب تک 5800 افراد ہلاک جبکہ 27000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کے پینل کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 60 فیصد سے زائد سویلین ہلاکتیں فضا سے کیے جانے والے حملوں کے باعث ہوئیں۔ ان ماہرین نے کم از کم ایسے تین مبینہ کیسز کا پتہ چلایا ہے جن میں رہائشی علاقوں پر بمباری کے دوران وہاں سے بچ نکلنے والے سویلین افراد کو ہیلی کاپٹروں نے نشانہ بنایا۔
اے ایف پی کے مطابق چونکہ یہ پینل خود یمن نہیں جا سکا لہذا انہوں نے حملوں سے قبل اور اس کے بعد لی گئی سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا ہے، جس سے اندازہ ہوا کہ ان حملوں میں ’’رہائشی علاقوں اور سویلین اہداف کے بڑے پیمانے پر تباہی کے شواہد ملے ہیں۔‘‘
یمن میں 21 ملین افراد اشیائے خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ یہ تعداد ملک کی کُل آبادی کا 82 فیصد بنتی ہے۔ خوراک، ایندھن اور دیگر اشیائے ضرورت لے جانے والے بحری جہازوں کو سعودی عرب کی طرف سے یمن تک نہیں پہنچنے دیا جا رہا جس کی وجہ سے انسانی حوالے سے شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
پینل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ لڑائی اور دیگر افسوسناک طریقہ کار کار کے باعث جن میں بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کا ممنوع طریقہ بھی شامل ہے، سویلین بہت بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے قبل ازاں انکوائری کرانے کی کوشش سعودی اعتراضات کے باعث ناکام ہو گئی تھی۔