یمن میں منتقلیٴ اقتدار کی ڈیل پھر التواء کا شکار
22 مئی 2011یمن میں صدرصالح کو منصب صدارت سے فارغ کرنے کی گلف کونسل کی ڈیل کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ اتوار کی صبح ایسے اشارے سامنے آگئے تھے کہ صالح نے اس ڈیل پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اب انہوں نے کچھ اور شرائط پیش کردی ہیں۔ اتوار کی صبح بھی انہوں نے اپنے اس مؤقف کو دہرایا کہ ان کے فارغ ہونے کے بعد یمن میں انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہو گا اور القاعدہ جڑیں پکڑے گی۔
گلف کونسل کے مصالحتی فارمولے پر یمنی اپوزیشن کی جانب سے گزشتہ رات دستخط کردیے گئے تھے۔ علی عبداللہ صالح نے اپوزیشن کے دستخط کو اہمیت دینے سے انکار کردیا۔ اپوزیشن کے اتحاد کامن فورم کے ترجمان محمد قحطان کے مطابق اگر اقتدار پر قابض صدر دستخط سے انکاری ہوئے تو پھر انقلاب میں شدت پیدا ہو گی اور عوام صالح کو دفتر سے نکال باہر کریں گے۔
اتوار کی صبح دارالحکومت صنعاء میں صالح کے حامیوں نے ایک زور دار ریلی کا اہتمام بھی کیا۔ ریلی کے شرکاء ڈنڈے اور دیگر ہتھیاروں سے لیس تھے۔ انہوں نے صدارتی محل اور ہوائی اڈے جانے والے تمام راستے روک دیے تھے۔ صالح کے حامیوں نے حکومت مخالف ایک شخص کو فائر کر کے ہلاک بھی کیا۔ اسی طرح یمن کے دوسرے بڑے شہر تعز میں بھی صالح مخالف مظاہرے پر ریپبلکن گارڈز کی فائرنگ سے کم از کم سات افراد شدید زخمی ہوئے۔
حکمران جنرل پیپلز کانگریس کے مطابق صدر صالح کھلے عام ڈیل پر دستخط کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ تمام فریقوں کی موجودگی کو اہم خیال کرتے ہیں۔ گلف کونسل کی ڈیل پر دستخط کر نے کے لیے صدارتی پیلس کو منتخب کیا گیا تھا۔
ہفتہ کے روز عرب دنیا میں یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ اتوار کو یمنی صدر علی عبداللہ صالح اقتدار چھوڑنے کی ڈیل پر دستخط کردیں گے۔ ڈیل کے تحت قومی حکومت اپوزیشن کے وزیر اعظم کی نگرانی میں قائم کی جائے گی۔ اگلے ساٹھ دنوں میں صدارتی الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ صدر کو عدالتی چارہ جوئی سے استثناء قرار دیا دیا جائے گا۔ صالح تیس دنوں کے اندر منصب صدارت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ گزشتہ روز سے ہی صدر صالح نے ڈیل کے مندرجات پر تنقید کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
گلف کونسل کی غیر معمولی میٹنگ اتوار کی شام میں ہونا ہے۔ صدر صالح کو اقتدار منتقل کرنے کے معاملے پر راضی کرنے کے حوالے سے گزشتہ کئی ہفتوں سے گلف کونسل مصروف ہے۔ ہفتہ کی رات یمنی اپوزیشن کے لیڈران نے چھ رکنی گلف کونسل کے اراکین سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ میں امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی شریک تھے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ