یمن کا ناکام ریاست میں تبدیل ہونے کا خدشہ
4 نومبر 201023 ملین نفوس پرمشتمل یمن پہلے ہی بھوک اورغربت کی گرفت میں ہے جبکہ دوسری طرف وہاں القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اسے مزید مشکلات میں مبتلا کئے جا رہا ہے۔ اگرچہ یمن سے امریکہ بم بھیجنے کی کوشش تو ناکام بنا دی گئی تاہم یمن میں موجود انتہا پسندوں سے بالخصوص مغربی ممالک کو اب زیادہ خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔
مغربی اورخلیجی ممالک کے ڈونرز ابھی تک یمن کے لئے کوئی خاص حکمت عملی تیار نہیں کر سکے ہیں۔ گزشتہ سال پچیس دسمبرکو ڈیٹرائٹ ناکام حملے کے بعد مغربی ممالک کو اندازہ ہوا تھا کہ معاشی بدحالی کے شکاراس ملک میں اقتصادی ترقی اور لوگوں کے معیارزندگی کو بہتر بنائے بغیر وہاں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے رواں سال جنوری میں ہی 'فرینڈز آف یمن' کے نام سے بنائے گئے ایک گروپ نے وہاں امدادی کاموں کے لئے خطیر رقم مختص کی تھی۔
لندن میں منعقد ہوئے فرینڈز آف یمن کے اجلاس کو قریب ایک سال کا وقت ہونے والا ہے۔ اب ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ یمن کے لئے جو مالی امداد دی گئی تھی اس میں سے زیادہ تر یا تو غیر ضروری کاموں پر خرچ ہوئی یا پھر بد عنوانی کی نذر ہوئی، نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔
دوسری طرف یمنی حکام اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ اگر یمن کی زبوں حال معیشت کو سہارا نہ دیا گیا تو یمن ایک ناکام ریاست بن جائے گا، جس کے نتیجے میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ فائدہ اٹھا کر وہاں اپنی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔
اسی تناظرمیں آئندہ برس فروری میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے تاکہ یمن کی صورتحال کا بغورجائزہ لیتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔
اس ڈونر کانفرنس سے قبل آئندہ کے لائحہ عمل کو منطقی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے لندن کے ایک تھنک ٹینک نے ایک خصوصی سیمینار منعقد کروایا۔ اسی ہفتے London's Chatham House میں منعقد ہوئے اس سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیر برائے بین الاقوامی ترقی ایلن ڈنکن نے یمن کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے،' یمن کا مستقبل، اس کے دوستوں کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے دوستوں کو متحد ہو کر کام کرنا پڑے گا۔'
یمن میں بدعنوانی اور سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے نتیجے میں وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یمن میں ہر 9 واں بچہ خواراک کی کمی کا شکار ہے۔ وہاں آبادی میں سالانہ دو اعشاریہ نو فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ یمنی حکومت خوراک کا 75 فیصد حصہ بیرون ممالک سے درآمد کرتی ہے۔ وہاں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ یمن میں اقتصادی بد حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں چالیس فیصد بالغ افراد ناخواندہ ہیں جبکہ خواتین کےساتھ امتیازی سلوک بھی نمایاں ہے۔
ایک امریکی سکالررابرٹ برآوز کے بقول ،' کم ازکم سن 1997ء سے یمن کے صدر نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک میں پائیدار ترقی کے لئے یا تو سیاسی عزم کا فقدان رکھتے ہیں یا پھر ان کی حکومت اس قابل ہی نہیں ہے۔' دوسری طرف عالمی رہنما اس بات پر بھی متفق ہیں کہ گزشتہ تین عشروں سے برسر اقتدار یمنی صدر علی عبداللہ صالح، یمن کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک اہم طاقت ہو سکتے ہیں۔
یمن کے ایک سیاسی تجزیہ نگارعبداللہ غنی نے خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں اقتصادی شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ صرف روایتی اقتصادی ترقی سے یمن میں القاعدہ کا اثرو رسوخ کم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یمنی حکام اور اس کے دوست یمن میں موجود مسائل کے حل کے لئے کوئی ایک حکمت عملی نہیں بنائیں گے تب تک مسائل کا حل ناممکن ہے۔
عالمی رہنما اگرچہ ابھی تک یمن کے لئے کوئی مؤثرحکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے ہیں تاہم لندن میں یمن پرمنعقد ہوئے خصوصی سیمنار میں اس پرضرور اتفاق ہوا کہ آئندہ سال فروری میں فرینڈز آف یمن کے اجلاس میں اس حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور ہو جائے گا۔ ایلن ڈونکن نے اس اجلاس کو ایک 'سنہری موقع' قرار دیا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف