یمن کے حوثی باغی طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
15 دسمبر 2022یمن میں جنگ گزشہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ ایک انسانی المیہ بھی جنم لے چکا ہے۔ جنگ کی وجہ سے اسے کوئی 'مثبت پیش رفت‘ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ہوا یہ تھا کہ جنگی حالات میں خواتین کا کردار ابھر کر سامنے آیا تھا۔
خواتین کا یہ کردار کسی حکومتی پالیسی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یمن کے تباہ کن انسانی حالات کا مطلب یہ تھا کہ خواتین کو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے روایتی طور پر طے شدہ کردار سے کہیں زیادہ فعال کردار ادا کرنا تھا۔ بہت سی خواتین نے ملک کے طول و عرض کا بے مثال سفر کیا۔
خواتین کی آزادی چھینی جا رہی ہے
تاہم اب خواتین کی یہ سفری آزادی بھی چھینی جا رہی ہے۔ لامیہ ایک نوجوان یمنی خاتون ہیں، جنہوں نے تین سال سے زائد عرصے تک ایک فلاحی تنظیم میں کام کیا ہے لیکن وہ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ شاید جلد ہی اب ایسا ممکن نہ رہے۔
ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی، جو 2012ء میں منصور ہادی کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، اب برسوں کی جنگ کے بعد دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے جنوب مغرب پر قابض ہیں۔ انہوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں 'محرم قانون‘ نافذ کر دیا ہے یعنی کوئی بھی خاتون کسی قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر نہیں کر سکے گی۔
یمن میں بچھی بارودی سرنگیں، ہر قدم پر موت
اس فیصلے کے خواتین پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔ مثال کے طور پر لامیہ کی ہی مثال لے لیجیے۔ ان کے والد ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کو کام کرتا دیکھنا بھی چاہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی بیٹی کے ساتھ جائیں۔ نہ تو وہ اس کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی صحت اس بات کی اجازت دیتی ہے۔
یہ نئے احکامات صرف لامیہ ہی نہیں بہت سی یمنی خواتین کے لیے بڑے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اُم عمر نے حال ہی میں صنعا کا سفر کیا، جہاں انہیں اپنے رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اُم عمر پچاس کی دہائی کے وسط میں ہیں اور سن 2014ء سے اپنے خاوند اور پانچ بچوں کے ہمراہ بیرون ملک مقیم ہیں۔ انہیں کرایے کی کار فراہم کرنے والی کمپنی نے بتایا کہ اگر وہ دوبارہ ان کی سروس حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں کہیں بھی جانے کے لیے کسی محرم کو لازمی اپنے ساتھ رکھنا ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ ایئرپورٹ تک بھی تنہا نہیں جا سکیں گی۔
اُم عمر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''مزید پیچیدگیوں سے بچنے اور پیسوں کی بچت کے لیے میرا خاندان ثالثوں کے ذریعے حوثی باغیوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ مستقبل میں میرے سفر کو آسان بنایا جا سکے‘‘۔
مقامی یمنی خواتین کی تنقید
یمن کی سابق وزیر برائے انسانی حقوق حوریہ مشہور کہتی ہیں کہ حوثی باغیوں کے نئے احکامات موجودہ ملکی قوانین اور خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ احکامات آج کل کے لوگوں کی روزمرہ زندگی کی حقیقت سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتے۔
وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو، جن خطرات کا سامنا 1400 برس پہلے تھا، جب اس طرح کے قوانین پہلی بار بنائے گئے تھے، اب وہ خطرات موجود نہیں ہیں۔ وہ دلیل دیتی ہیں کہ آج کی دنیا نقل و حمل اور مواصلات کے ذرائع سے بھرپور ہے اور اس طرح کے حکم نامے بے معنی ہیں۔
حوثی باغیوں کی وضاحت
حوثی حکام کی نام نہاد وزارتِ انسانی حقوق کے ترجمان سناد السنیدی کا کہنا ہے کہ فی الحال اس فیصلے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم اس کا استدلال ہے کہ اس حکم نامے کا مقصد خواتین پر من مانی پابندیاں عائد کرنا نہیں بلکہ ان کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ حکم نامہ جاری کرنے کا فیصلہ اس ''جبر‘‘ کے پیش نظر کیا، جس کا شکار کئی خواتین جنگ کے دوران ہوئیں۔ انہوں نے کئی مثالیں بھی دیں کہ اُن علاقوں میں خواتین کا کیسے استحصال کیا گیا، جو حوثیوں کے زیر کنٹرول نہیں تھے۔
یہاں تک کہ ناقدین بھی اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ سکیورٹی کی ناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر یمن میں سفر خاص طور پر خواتین کے لیے خطرناک ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ خواتین اور ان کے اہل خانہ اس خطرے سے آگاہ ہیں اور اس تناظر میں مناسب حفاظتی اقدامات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کی دلیل دیتے ہوئے خواتین کی آزادیوں اور ترقی کے مواقع پر قدغن لگانا درست نہیں ہے۔
رپورٹ: صفیہ مہدی (ا ا / ع ت)