ینگ لک شناواترا کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع
9 جنوری 2015تھائی عدالت میں اگر وزیراعظم ینگ لک شناواترا کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اُن پر پانچ برس تک کی پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ ینگ لک تھائی لینڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں اور وہ خود ساختہ جلا وطن سابق وزیراعظم تھاکسن شناواترا کی بہن بھی ہیں۔ ینگ لک شناواترا کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں عدالت نے اُنہیں گزشتہ برس مئی میں وزارت عظٰمی کے منصب سے ہٹا دیا تھا۔ اس کے کچھ روز بعد ہی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
ینگ لک سیاہ اور گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے عدالت میں حاضر ہوئیں۔ اِس موقع پر محافظین اور اُن کی پارٹی کے کچھ کارکن اُن کے ہمراہ تھے۔ کمرہ عدالت سے باہر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں نے پوری ایمانداری اور قانون کے مطابق حکومت کی تھی۔‘‘ اُنہوں نے ایک مرتبہ پھراُن پر عائد کیے جانے والے الزامات کو رد کیا۔ اُن کے بقول ’’چاول کے کاشت کاروں کے لیے اُن کا منصوبہ اِن کسانوں کی زندگی بہتر بنانے ، اُن کے قرضے کم کرنے اور چاول کی گرتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے تھا۔‘‘ ینگ لک نے مزید کہا کہ اُنہوں نے ملک کے 1.8 ملین چاول کے کاشتکاروں سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ سب کچھ اُنہوں نے نیک نیتی، بغیر کسی بغض اور پوشیدہ سیاسی مفادات کے کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ شناوترا خاندان کی تھائی سیاست پر اثر رسوخ ختم کرنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ اُن کی جماعت 2001ء کے بعد تمام انتخابات میں کامیاب رہی ہے۔ شناواترا خاندان کو اُن کی سیاست کی وجہ سے ملک کے دیہی علاقوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔ مقامی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر ینگ لک کو قصور وار قرار دیتے ہوئے سیاست میں پانچ سال کی پابندی عائد کی جاتی ہے تو اُن کے حامیوں’ریڈ ٹی شرٹس‘ کی جانب سے دوبارہ ملک گیر مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔
بنکاک میں سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کے ادارے سے منسلک ایک ماہر تھیتانن نے کہا کہ ’’ ایک جانب فوج چاہتی ہے کہ ینگ لک کو مکمل طور پر نااہل قرار دے دیا جائے تاہم دوسری جانب اگر اُنہوں نے شناواترا پر پابندی عائد کروانے یا اُن پر فوجداری مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو تھائی لینڈ میں سیاسی تنازعہ مزید خراب صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ جنوری کے اوآخر تک متوقع ہے۔