یوآن کے حوالے سے لچکدار پالیسی، چین کا اعلان
21 جون 2010امريکہ اور کئی دیگر مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ چين اپنی برآمدات کو سستا رکھنے کے لئے اپنی کرنسی يوآن کی قيمت کو نچلی سطح پر رکھے ہوئے ہے۔
بیجنگ حکومت نے چين کے زبردست برآمدی منافع پر مغربی ممالک کے ساتھ برسوں سے جاری تنازعے کو کينيڈا ميں ہونے والی جی ٹوئنٹی ممالک کی کانفرنس سے چند دن پہلے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چين کے مرکزی بينک نے چينی کرنسی یوآن کو امریکی ڈالر سے غير منسلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اُس کی شرح تبادلہ کو لچکدار بنانے کا فيصلہ کيا ہے۔ تاہم اس اعلان کے فوراً بعد حکومتی ترجمان چِن گانگ نے بیجنگ میں صحافيوں سے باتيں کرتے ہوئے اُس جوش و خروش کو کم کرنے کی کوشش کی، جو امريکہ ميں چين کے اس اعلان کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ امريکہ ميں اس چينی فيصلے کو کرنسی کے تنازعے ميں بیجنگ کی طرف سے ايک رعايتی اور مصالحتی قدم سمجھا جا رہا ہے: ’’ہم جی20 کانفرنس ميں يوآن کی شرح تبادلہ پر بحث کو غير موزوں سمجھتے ہيں۔ ہم اپنی کرنسی ميں اصلاحات کا عمل جاری رکھيں گے، ليکن ہم ايسا خود مختار طور پر کريں گے اور اس سلسلے ميں کسی بھی دباؤ کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔‘‘
چين کا نقطہء نظر يہ ہے کہ مغربی ممالک، خصوصاً امريکہ اُس پر اِس قسم کا دباؤ ڈال رہا ہے۔ امريکی سياستدان واشنگٹن کے بھاری تجارتی خسارے اور ملک ميں ملازمتوں کے مواقع ميں کمی کا ذمہ دار چين کی سستی مصنوعات کو قرار دے رہے ہيں، کيونکہ چين اپنی کرنسی يوآن کی قدروقیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھے ہوئے ہے۔
تاہم يہ دليل نہ صرف چينی بلکہ بعض دوسرے ملکوں کے اقتصادی ماہرين کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ہانگ کانگ ميں چينی امور کے امريکی ماہرڈيوڈ زوائگ نے کہا: ’’اقتصادی بحران کے سالوں ميں چين کے لئے امريکی برآمدات ميں سب سے زيادہ اضافہ ہوا۔ چين دنيا کا اسمبلنگ ہال ہے، جہاں مصنوعات کو جوڑنے يا اسمبل کرنے کے بعد امريکہ اور دوسرے ملکوں کو برآمد کيا جاتا ہے۔ 60 سے 70 فيصد تک چينی برآمدات اسی طرح چین سے باہر بھیجی جاتی ہیں۔‘‘
چين کی برآمدی اور درآمدی تجارت ميں کوئی توازن نہيں ہے اور خارجہ تجارت پر بہت زيادہ زور ہے، جس کے لئے ايک مستحکم کرنسی انتہائی ضروری ہے۔ تاہم اب چين میں بھی برآمدات سے ہٹ کر نجی صرف اور داخلی منڈی ميں اضافےپر توجہ کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
اُدھر جرمن حکومت نے چينی کرنسی ميں اصلاحات کے اعلان کا خير مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے جرمنی سے برآمدات ميں بھی اضافہ ہوگا۔
رپورٹ: آسٹرِڈ فرائی آئزن، شنگھائی / شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک