یورو وژن بچوں کے لیے نامناسب ہے، ترک حکام
5 اگست 2018ترکی کے جدید موسیقی کے گلوکار بظاہر اپنے ملک میں خاصی شہرت رکھنے کے علاوہ بہت زیادہ پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس صورت حال کے باوجود ترک حکام سن 2012 سے گیتوں کے یورپی مقابلے یورو وژن کا ایک انداز میں بائیکاٹ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
ترک نشریاتی اتھارٹی کا موقف یہ ہے کہ سرکاری ٹیلی وژن پر نو بجے کے بعد بھی اس پروگرام کو نشر کرنا محال ہے کیونکہ اس وقت بھی بہت سارے بچے ٹیلی وژن دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس منابست سے سن 2014 میں ایک داڑھی والے آسٹرین مرد کی مثال بھی دی جاتی ہے۔ اُس شخص نے مقابلے میں شریک ہو کر خود کو ایک ہی وقت میں مرد اور عورت قرار دیا تھا۔ اس داڑھی کے حامل مرد نے خود کو ڈریگ کوئین کونچیٹا کا نام دے رکھا تھا۔
ترک براڈ کاسٹنگ اتھارٹی کے سربراہ ابراہیم ایرن کا کہنا ہے کہ کئی ممالک ترکی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور اس کو درست بھی قرار دیتے ہیں۔ ایرن کے مطابق اگر یورو وژن کے منتظمین اس مقابلہٴ موسیقی کے انداز اور مواد میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں تو ترکی کو اسے نشر کرنے میں کوئی عار نہیں ہو گی۔
دوسری جانب ترکی میں قدامت پسند سیاستدان اور صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے ناقدین کا خیال ہے کہ وہ ایک خاموش انداز میں اسلامائزیشن کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان ملکوں میں ترکی ایک ایسا ملک ہے جہاں ہم جنس پرستوں اور مخنثوں کو برداشت کیا جاتا ہے۔ ترک حکام نے حالیہ کچھ برسوں سے گَے پریڈ کے سلسلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ترکی نے سن 2012 میں یورو وژن کے مقابلے سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کی تھی کہ اس کے گیتوں کا معیار بہت ہی کم تر ہونے کے علاوہ اس میں ووٹنگ کے ضوابط بھی ناقص ہیں۔ اس ضمن میں ترکی بسا اوقات برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین کی اس مقابلے پر چھاپ کو تنقیدی انداز میں لیتا ہے۔
انقرہ حکومت کا اس تناظر میں کہنا ہے کہ ان ملکوں کو ہمیشہ اس کے فائنل میں جگہ دی جاتی ہے۔ یورو وژن گیتوں کے دو مقابلے بالترتیب سن 2003 اور سن 2004 میں ترک شہر استنبول میں منعقد ہوئے تھے۔ ان مقابلوں میں ترکی کے پاپولر موسیقی کے مشہور گلوکار سرتاب ایرنر نے مسلسل کامیابی حاصل کی تھی۔ ترکی سے آخری بار نام سن 2012 میں بھجوایا گیا تھا لیکن مقابلے میں شرکت سے پہلے ہی اس ملک نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔