یورپ ایشیا عوامی فورم: امن اور خوشحالی کا سانجھا خواب
30 ستمبر 2018بیلجیم کے شہر گینٹ میں انتیس ستمبر سے شروع ہونے والا یہ تین روزہ اجلاس، یورپ ایشیا عوامی فورم کا بارہواں سالانہ اجتماع ہے۔ اس فورم کو یورپ اور ایشیا کی سول سوسائٹی تنظیموں، ٹریڈ یونینوں، متبادل سیاسی نظریوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانش وروں کے نمائندہ اجتماع کا درجہ حاصل ہے۔
اس فورم کا قیام 1996 میں، پہلے ایشیا یورپ ریاستی اجلاس(آسم) کے موقع پر، بنکاک میں عمل میں آیا تھا۔ اسے بنانے کا مقصد ایک عوامی دباؤ قائم کرنا تھا تاکہ ریاستیں اور حکومتیں اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ انہیں حکمران اشرافیہ کا نہیں بلکہ اربوں انسانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اس فورم کا ایک مقصد عالمی سرمایہ داری کو یہ باور کرانا بھی ہے کہ انصاف پسندوں کی عالمی یکجہتی ہمیشہ قائم رہے گی۔
اس فورم کی اہمیت کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ ’’یہاں احساس ہوتا ہے کہ بیشتر ایشیائی ممالک کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ خصوصاﹰ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے عوام کو جعلی جمہوریت، مذہبی انتہا پسندی، جہالت، غربت اور ریاستی جبر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔‘‘ حامد میر کا کہنا تھا کہ انہیں اس فورم میں ہونے والی کوئی بات اجنبی نہیں لگی، ’لاؤس کے لاپتہ دانشور، سومباتھ کی اہلیہ نے جو کہانی سنائی ہے، وہ پاکستان میں لاپتہ ہونے والے سینکڑوں افراد کی کہانی ہے۔‘‘
سینیٹر سید مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ اس فورم کے موقع پر رائے عامہ کے قائدین جمع ہوتے ہیں۔ اس تبادلہ خیال اور ماہرانہ گفت وشنید کے نتیجہ میں ایک اعلامیہ تیار ہو گا، جو آئندہ ماہ برسلز میں آسم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پیش کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فورم انسانی حقوق اور عوام کے حق حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو مل بیٹھنے، سیکھنے سکھانے اور اظہار یکجہتی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مشاہد حسین کے بقول، ’’جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔‘‘
قائداعظم یونیورسٹی میں جینڈر اسٹڈیز کی استاد اور انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ’’ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ دن بدن لوگوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں، غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، سماجی انتشار، مذہبی انتہا پسندی اور معاشرتی تقسیم بڑھ رہی ہے۔ اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عالمی سرمایہ داری اور اس کے تحفظ کی سیاست کس طرح ہم پر اثر انداز ہو رہی ہے، کس طرح ہماری حکمران اشرافیہ اپنے مفادات کی خاطر عالمی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن چکی ہے۔‘‘
ناانصافی کی مزاحمت کرنے والوں کے میل ملاقات اور تبادلہ خیال کی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا، ’’یہ سب لوگ تبدیلی کے خواہش مند ہیں، اپنے معاشروں میں بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ انہیں احساس ہے کہ آنے والا وقت عالمی سماجی تحریک کا وقت ہے۔ گلوبلائزیشن نے ناانصافی، ناہمواری اور تقسیم در تقسیم کا ایک ایسا بازار گرم کیا ہے کہ اس کے خلاف ایک عالمی تحریک ناگزیر ہو چکی ہے۔‘‘
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما فاروق طارق کے خیال میں، ’’ریاستوں کے سربراہوں اور حکومتی نمائندوں کو ملنے کے مواقع حاصل ہیں لیکن لوگوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا جاتا ہے، انہیں قوم پرستی اور مذاہب کے نام پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزے نہیں دیتے۔ اس صورت میں یہ عالمی کانفرنسیں اور فورم ہمیں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور یہ بہت ضروری ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کے بغیر ترقی اور خوشحالی ناممکن ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے ماہر معاشیات اور ترقیاتی حقوق کے کارکن انو محمد کا کہنا تھا کہ ہم انسانی برابری، احترام اور معاشی خوشحالی پر مبنی جس معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشش کر رہے ہیں، اسے مقامی سطح پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اگر استحصال کی طاقتیں عالمی ہیں تو مزاحمت بھی عالمی سطح پر ہو گی۔ انو محمد کے مطابق، ’’جنوبی ایشیا میں عوام کا براہ راست رابطہ اور یکجہتی کا فروغ انتہائی ضروری ہے۔ یہاں حکومتوں اور سرمایہ داروں کے درمیاں رابطہ اور یکجہتی قائم ہے لیکن عوام اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے درمیان رابطہ ممکن نہیں۔‘‘
جی ٹوئنٹی سمٹ کے ایجنڈے میں آزاد اور منصفانہ تجارت کہاں؟
بھارت کی ورشا راجن بیری اور نسرین کنٹریکٹر کا کہنا تھا کہ ہم سب لوگ بٹے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں ہم ایک دوسرے سے سیکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ ان کے مطابق، ’’سب اختلافات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے ماہی گیروں کے حوالے سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم موجود ہے تو باقی مسائل کے حوالے سے بھی مشترکہ کام کئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں نفرت اور دشمنی کی موجودہ فضا کو ختم کرنے کے لیے مل جل کر کوشش کرنا ہو گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی اشتراک بہت ضروری ہے۔
سری لنکا کی نالنی رادھنا راجہ سول وار سے متاثرہ خاندانوں خصوصاﹰ خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، ’’میں جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق اور ترقیاتی حقوق کے لیے قائم کئی فورموں کی رکن ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے خطے میں غیر جمہوری قوتیں بہت سرگرم اور طاقتور ہیں اور عالمی طاقتیں عوام کی بجائے انہی کی سرپرستی کرتی ہیں۔ میں یہاں یہ ظاہر کرنے آئی ہوں کہ ناانصافی کے خلاف ہم متحد ہیں، وہ جنوبی ایشیا ہو، ایشیا ہو یا پھر یورپ۔‘‘