یورپ خود کو امریکا کی ’موازن قوت‘ بنائے، جرمنی کا اصرار
22 اگست 2018وفاقی جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا جب بھی ’کوئی سرخ لکیر عبور کرے، تو یورپ کو اس کے مقابلے میں اتنی ہی اہمیت اور برابر وزن کی حامل قوت ثابت ہونا چاہیے۔ جرمنی کی اس سیاسی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ہائیکو ماس نے counterweight یا ’ثقل موازن‘ کی اصطلاح استعمال کی۔
ایک مہمان مصنف کے طور پر جرمنی کے معروف اقتصادی جریدے ’ہانڈلزبلاٹ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ہائیکو ماس نے لکھا کہ جرمنی چاہتا ہے کہ یورپ اور امریکا کے مابین شراکت داری ایسی اور اتنی متوازن ہونا چاہیے کہ ’جہاں جہاں امریکا پیچھے ہٹے، وہاں یورپ اپنی موازن قوت کے ساتھ اس کی جگہ لے سکے‘۔
ہائیکو ماس کے الفاظ میں، ’’(امریکا کے ساتھ پارٹنرشپ کا نئے سرے سے جائزہ لیے بغیر) اپنے طور پر ہم اس عمل میں ناکام رہیں گے اور ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ایک بہت مضبوط اور خود مختار یورپ کی تعمیر کی جائے۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس بارے میں اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ جرمن وزیر خارجہ ماس نے اپنا یہ مضمون ایک ایسے وقت پر لکھا ہے جب امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہیں لیکن دو بہت بڑی وجوہات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یورپی یونین کی فولاد اور المونیم کی برآمدات پر امریکا میں اضافی محصولات عائد کر دینا اور واشنگٹن کا ایران اور بڑی عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدے سے نکل جانا ہیں۔
یورپ کی کوشش ہے کہ ایران کو اس امر کا قائل کیا جائے کہ تہران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکی اخراج کے بعد بھی ایران کو 2015ء میں طے پانے والی بین الاقوامی ڈیل پر کاربند رہنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف امریکا کی ایران کے خلاف دوبارہ لگائی گئی پابندیوں کے باعث یورپی کاروباری اداروں کو تشویش بھی ہے کہ انہیں ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کی وجہ سے واشنگٹن کی طرف سے بھاری مالی جرمانوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات یورپی کاروباری اداروں اور یورپی سیاستدانون دونوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
بات چاہے ایران کے ساتھ امریکی اختلافات کی ہو یا دیگر بڑے تنازعات کی، بین الاقوامی سطح پر مالی ادائیگیوں کے نظام پر امریکی غلبہ ہے۔ اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ ماس نے اپنے مضمون میں لکھا کہ اگر یورپ ایران کے ساتھ جوہری ڈیل کو مکمل ناکامی سے بچانا چاہتا ہے، تو اسے مالی ادائیگیوں کا ایک ایسا نیا نظام تشکیل دینا ہو گا، جس پر امریکا اثر انداز نہ ہو سکے۔
ہائیکو ماس نے لکھا، ’’مالی ادائیگیوں کے کسی یورپی نظام کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے کہ یورپ اپنی خود مختاری کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بناتے ہوئے رقوم کی منتقلی کے ایسے راستے کھولے، جن کا امریکا سے کوئی تعلق نہ ہو۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ کے مطابق ایسے کسی مالیاتی نظام کے لیے ’ایک یورپی مالیاتی فنڈ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ امریکا سے ہٹ کو ایک آزاد SWIFT نظام کا قیام‘۔
ایران نے ابھی پیر بیس اگست کے روز ہی یورپ سے پھر مطالبہ کیا تھا کہ یورپی ممالک عالمی طاقتوں کی تہران کی ساتھ جوہری ڈیل کو بچانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔ اس دوبارہ مطالبے کی وجہ فرانس کی بہت بڑی تیل کمپنی ٹوٹل کا پیر ہی کے روز کیا گیا یہ فیصلہ بنا تھا کہ وہ امریکی پابندیوں کی بحالی کے بعد اب ایران میں ایک بہت بڑے گیس منصوبے پر کام نہیں کرے گی۔
اس پس منظر میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ’ہانڈلزبلاٹ‘ میں اپنے مضمون میں جرمنی اور یورپ کی واضح سوچ اور ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ’’آج امریکا کو یہ بتانا اسٹریٹیجک حوالے سے انتہائی اہم ہو چکا ہے کہ یورپ امریکا کے ساتھ کام تو کرنا چاہتا ہے لیکن وہ امریکا کو کبھی یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ یورپ کے ساتھ مشورے کیے بغیر یورپی مفادات کو نقصان پہنچائے۔‘‘
م م / ع ا / روئٹرز، اے ایف پی