یورپ سے بے دخل افغان، جنگ اور بے روزگاری میں گھرے
4 اپریل 2017افغان وزارت برائے مہاجرت کے ترجمان حافظ احمد میاخیل کے مطابق رواں برس اب تک 248 افغان تارکین وطن کو یورپ سے ان کے آبائی ملک بھیجا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد 580 تھی۔
جبری طور پر یورپ بدر کیے جانے والے افغان باشندوں کی تعداد ان ہزاروں افغان باشندوں کے مقابلے میں خاصی قلیل ہے، جو رضاکارانہ طور پر وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔ تاہم ان جبری ڈیپورٹیشنز پر متعدد یورپی حلقوں کی جانب سے تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ افغان تارکین وطن کو ایک ایسے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، جہاں اب بھی طالبان کی پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں اور جہاں ملک کے قریب دو تہائی حصے پر کابل حکومت کا کنٹرول ہی نہیں۔
جرمنی کی جانب سے مزید 15 افغان باشندوں کو منگل کے دن کابل پہنچایا گیا، جب کہ افغانستان واپس بھیجے جانے والے دیگر افغان باشندوں میں سے 1 آسٹریا سے اور دس سویڈن سے تھے۔
یورپی حکومتوں کا کہنا ہے کہ صرف ایسے افغان باشندوں کو افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے، جن کی جانب سے سیاسی پناہ کے لیے جمع کرائی جانے والی درخواستیں تمام تر سطحوں پر رد ہوئیں جب کہ افغانستان کے متعدد حصے محفوظ ہیں اور واپس بھیجے جانے والے افراد کا تعلق انہیں محفوظ شہروں سے ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں یورپ میں پناہ کے لیے پہنچنے والوں میں شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ تھے جب کہ دوسرے نمبر پر سب سے بڑی تعداد میں افغان باشندے یورپ پہنچے تھے۔
ادھر افغان وزارتِ مہاجرت کے ترجمان میاخیل کا کہنا ہے کہ معاہدے کی رو سے افغان حکومت اپنے شہریوں کو قبول کرنے کی پابند ہے، تاہم اسے بین الاقوامی برادری کی مزید امداد کی ضرورت بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک طالبان، داعش اور القاعدہ سے لڑائی میں مصروف ہے اور دوسری جانب ان کے ملک کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ تارکین وطن کی واپسی کی صورت حال کا سامنا بھی ہے۔