یورپ پہنچنے کا ایک اور راستہ، بحیرہء اسود
13 ستمبر 2017مبصرین کے خدشات ہیں کہ جو تارکین وطن ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپ پہنچنے سے قاصر ہیں، یا جو بلقان کی ریاستوں کی قومی سرحدوں کی بندش کی وجہ سے اس راستے سے مغربی یورپ پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو رہے، وہ بحیرہء اسود کو ایک نئے راستے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش سے لیبیا اور پھر یورپ، مہاجرین کا نیا راستہ
مہاجرین کا راستہ کیسے روکا جائے؟ اٹلی کا نیا منصوبہ
ترکی سے اٹلی: انسانوں کے اسمگلروں کا نیا اور خطرناک راستہ
حکام کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب رومانیہ کی مشرق میں بحیرہء اسود میں ریسکیو کیے جانے والے ان ایک سو تریپن افراد میں 53 بچے اور 51 خواتین بھی شامل ہیں، جب کہ سمندری موجوں سے لڑنے والی ان کی کشتی کی حالت بھی نہایت شکستہ تھی۔
رومانیہ کے کوسٹ گارڈز کے ترجمان کرسٹیان کیکو کے مطابق، ’’کشتی کو ریسکیو کرنے کی اس کارروائی کے وقت سمندر میں طغیانی تھی اور تین تین میٹر اونچی لہریں تھی۔ یہ افراد انتہائی خطرناک صورت حال کا شکار تھے اور خطرہ تھا کہ ان کی کشتی ڈوب جائے گی اور ساتھ ہی یہ تارکین وطن بھی سمندر کی نذر ہو جائیں گے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان تارکین وطن کو پہلے طبی معائنے کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا اور پھر امیگریشن حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاست رومانیہ شینگن زون میں شامل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ رومانیہ کے ذریعے تارکین وطن نے یورپی یونین میں داخلے کی کوشش کم کم ہی کی ہے، تاہم دیگر راستوں کی بندش کے بعد یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ تارکین وطن اب اس ریاست کو بھی بہ طور راستہ استعمال کر سکتے ہیں۔
بخاریسٹ حکومت کے خدشات ہیں کہ بحیرہء روم کے ذریعے یورپی ممالک کا رخ کرنے والے افراد کے لیے جس قدر وہ خطرناک راستہ مسدود ہوتا جا رہا ہے، تارکین وطن اسی قدر رومانیہ کے ذریعے یورپی یونین میں داخلے کی کوششوں میں تیزی لاتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ کے آغاز تک تارکین وطن کی انتہائی قلیل تعداد تھی، جو اس راستے سے یورپ پہنچی، تاہم اگست اور ستمبر کے مہینوں میں یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیکھی جا رہی ہے اور اگست کے آغاز سے اب تک قریب پانچ سو ستر تارکین وطن کو بحیرہء اسود میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔