یورپ کو گیس کی فراہمی، اسرائیل روس کی جگہ لینے کا خواہش مند
12 اپریل 2022یورپی یونین کی ریاستیں ٹائم ٹیبل کے حوالے سے منقسم ہیں لیکن یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈئیر لائن کے مطابق انہیں امید ہے کہ یورپی یونین سن 2027ء تک روسی گیس، تیل اور کوئلے پر انحصار ختم کر دے گی۔
حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ممکنہ طور پر یونان یا ترکی کے راستے ایک یا زیادہ پائپ لائنیں تعمیر کر سکتا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ مصر کی مہیا کی جانے والی گیس کی مقدار میں اضافہ کرے تاکہ وہاں سے مائع گیس بحری جہازوں کے ذریعے یورپ تک پہنچائی جائے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لاپیڈ نے یونان کے حالیہ دورے کے بعد کہا تھا، ''یوکرین کی جنگ یورپ اور مشرق وسطیٰ کی توانائی کی منڈی کے ڈھانچے کو تبدیل کر دے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم توانائی کی منڈی پر زور دیتے ہوئے اضافی اقتصادی تعاون کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘
گیس کی برآمد کے نئے راستے
اسرائیل گیس کی برآمد کے نئے راستے بنانے کے لیے برسوں سے کام کر رہا ہے لیکن اس کے اب تک ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔ ترکی کے گزشتہ ایک دہائی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار چلے آ رہے تھے لیکن اب ان میں بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ اب ترکی نے بھی ایک نئی پائپ لائن میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور آنے والے ہفتوں میں اس کے وزیر توانائی کی اسرائیل آمد متوقع ہے۔
ترکی کے ساتھ سفارتی کشیدگی کے دوران اسرائیل نے سن 2020ء میں یونان اور قبرص کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کا مقصد اسرائیل سے یورپ تک ان دو ممالک کے ذریعے 'ایسٹ میڈ پائپ لائن‘ تعمیر کرنا تھا۔ ترکی اس منصوبے کا شدید مخالف تھا اور گزشتہ ہفتے ایک اعلیٰ امریکی سفارتی عہدیدار نے بھی کہا ہے کہ اس پائپ لائن کو تعمیر کرنے میں بہت وقت لگ سکتا ہے اور اس کی تعمیر بھی انتہائی مہنگی ہو گی۔
وقت اور سرمایہ کاری
اگر یونان اور قبرص کی سمندری حدود کو استعمال کیا جائے تو اس پائپ لائن پر تقریبا چھ بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور تعمیر میں تقریبا چار برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ دوسری جانب ترکی کے ساتھ گیس پائپ لائن تعمیر کی جائے تو اس پر ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور اسے دو سے تین برسوں میں تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یونان اور اس کا علاقائی حریف ترکی دونوں ہی اسرائیل کے ساتھ مل کر گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں اور اسرائیل کو ان علاقائی اتحادیوں کے درمیان احتیاط سے چلنا ہو گا۔
مشرقی بحیرہ روم میں گیس کی بڑی دریافت، تقریباً 1000 بلین کیوبک میٹر، نے گزشتہ دہائی میں اسرائیل کو قدرتی گیس کے درآمد کنندہ سے برآمد کنندہ ملک میں تبدیل کر دیا ہے۔ ابھی یہ اپنے دو بڑے آف شور فیلڈز لیویتھن اور تمر سے مصر اور اردن کو تھوڑی مقدار میں گیس فروخت کرتا ہے۔
اسرائیل کے سابق وزیر توانائی یوول اسٹینٹز کے مطابق اگلی تین دہائیوں میں اسرائیل کی گھریلو کھپت کے باوجود برآمد کرنے کے لیے تقریباً 600 بلین کیوبک میٹر گیس ان کے پاس دستیاب رہے گی۔ اسرائیل کی وزارت توانائی میں قدرتی گیس کی بین الاقوامی تجارت کے ڈائریکٹر اوریت گانور کا کہنا ہے، ''سن 2016ء میں ترکی تک پائپ لائن کی جانچ کی گئی تھی، جس میں ترکی اور تجارتی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ لیکن یہ منصوبہ بنیادی طور پر اقتصادی وجوہات کی بناء پر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی تھا۔‘‘
اسرائیلی حکومت مصر کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کر چکی ہے، جس کے تحت پہلے سے موجود پائپ لائن کے ذریعے لیویتھن فلیڈ کی زیادہ گیس مصر تک پہنچائی جا سکتی ہے اور پھر اسے وہاں سے یورپ تک لایا جا سکتا ہے۔ لیویتھن فلیڈ کا انتظام اسرائیلی اور امریکی کمپنیوں 'نیو میڈ انرجی‘ اور 'یو ایس میجر شیورون‘ کے ہاتھ میں ہے۔
نیو میڈ انرجی کے سی ای او یوسی ابو نے حال ہی میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اسرائیلی گیس یورپ اور ایشیا تک پہنچائی جائے گی۔ دریں اثناء اسرائیلی حکومت نے مزید کئی کمپنیوں کو لائسینس جاری کیے ہیں کہ وہ مزید گیس کے ذخائر تلاش کریں۔
یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ گیس کی نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل اس صورتحال میں یورپ کی مدد کرتے ہوئے اسے آئندہ برسوں میں اس بحران سے نکال سکتا ہے۔ اسرائیلی حکومتی اہلکاروں کی کوشش ہے کہ مستقبل میں کسی ایک راستے کے انتخاب کی بجائے مصر، یونان اور ترکی کے یعنی تینوں راستوں سے گیس برآمد کی جائے۔
ا ا / ع ا ( اے ایف پی)