یورپ کے تین اہم ملکوں میں انتخابات اور مہاجرین کا مستقبل
12 مارچ 2017بریگزٹ کی وجہ سے مغربی یورپ میں پیدا ہونے والا مہاجرین مخالف اور یورپ مخالف رجحان ہالینڈ میں ہونے والے ان عام انتخابات کو متاثر کر سکتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر ان انتخابات میں مسلم اور مہاجرین مخالف جماعت عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے، تو اس کا واضح اثر رواں برس فرانس اور جرمنی میں ہونے والے انتخابات پر بھی پڑے گا۔
بدھ کے روز قریب 13 ملین ڈچ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان عام انتخابات میں 28 جماعتوں کے ایک ہزار ایک سو چودہ امیدوار شرکت کر رہے ہیں، تاہم اصل مقابلہ وزیراعظم مارک رُٹے کی لبرل جماعت اور مسلم اور مہاجرین مخالف رہنما گیئرٹ وِلڈرز کی فریڈم پارٹی کے درمیان متوقع ہے۔
عوامی جائزوں کے مطابق سن 2006 میں بننے والی فریڈم پارٹی ڈچ عوام میں پائے جانے والے مسلم اور مہاجرین مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھا کر غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو پائے گی اور آئندہ حکومت مخلوط ہی ہو گی، تاہم یورپ اور مسلم مخالف فریڈم پارٹی کے ساتھ کوئی بھی جماعت اتحاد کرنے پر آمادہ نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔
ولڈرز نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ ملک میں قائم تمام مساجد بند کر دیں گے، مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پر پابندی عائد کر دیں گے، جب کہ ملکی سرحدیں بند کرتے ہوئے ہالینڈ کو یورپی یونین سے باہر نکالنے کی کوشش کریں گے۔
لائڈن یونیورسٹی کے سیاسیات کے شعبے سے وابستہ ماہر گیرٹن ولِنگ کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پارلیمان منقسم ہو گی، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ملک میں ماضی کے مقابلے میں کسی مخلوط حکومت کا قیام بھی نہایت مشکل ہو گا۔
دوسری جانب فرانس میں بھی مہاجرین اور یورپ مخالف نیشنل فرنٹ بھرپور انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں اس جماعت کی رہنما لے پین 23 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شریک ہوں گی۔ اگر کوئی بھی امیدوار 50 فیصد حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا، تو صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ سات مئی کو منعقد ہو گا۔
جرمنی میں بھی مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر پوزیشن میں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں یہ جماعت بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔