یورپی عدالت: شہریوں کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے یورپی ضوابط ختم
8 اپریل 2014لکسمبرگ کے ججوں نے اپنے اس تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ کسی ٹھوس وجہ کے بغیر بڑے پیمانے پر شہریوں کا ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا محفوظ رکھنا نجی زندگی کے احترام کے بنیادی حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یورپی عدالتِ انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آٹھ سال پہلے 2006ء میں طے ہونے والے اِن ضوابط میں ایسی حدود کی کمی ہے، جو عام شہریوں کو حکام کی سُن گُن سے محفوظ رکھ سکیں۔ عدالت کے مطابق اِن ضوابط کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ ’نجی زندگیوں کی مستقل طور پر نگرانی کی جا رہی ہے‘۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ بغیر شک و شبے والے مواصلاتی ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کا اقدام زیادہ سے زیادہ محدود ہونا چاہیے۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد اب یورپی یونین کی حکومتوں کو ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے سلسلے میں جلد از جلد ایسے نئے قوانین وضع کرنا پڑیں گے، جو دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کو روکنے کے سلسلے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ آج کے فیصلے کے بعد جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’سنگین جرائم کی تحقیقات کے لیے ڈیٹا محفوظ رکھنا ضروری ہے اور آئندہ بھی اس کی ضرورت پڑے گی‘۔ ڈے میزیئر نے کہا کہ مخصوص حدود کے ساتھ نئے قوانین جلد از جلد وضع کرنا ہوں گے۔
28 رکنی یورپی یونین میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی نے ویسے بھی عدالتی چیلنجوں اور جرمن سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخالفت کے باعث 2006ء کے ضوابط کو اب تک نافذ العمل نہیں کیا تھا۔
ان ضوابط میں ٹیلی کمیونیکیشن سہولتیں فراہم کرنے والی کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ فون کالز یا آن لائن کمیونیکیشن کے ڈیٹا کو کم از کم چھ مہینے اور زیادہ سے زیادہ دو سال تک کے لیے محفوظ رکھیں۔
اس ڈیٹا سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ کسی مواصلاتی رابطے میں کون کون شریک تھا، کہاں کہاں سے رابطہ اُستوار کیا گیا، کب کیا گیا اور کتنی مرتبہ کیا گیا لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُس رابطے کے دوران کن کن معلومات کا تبادلہ کیا گیا۔ تاہم لکسمبرگ کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ان ضوابط سے بہرحال روزمرہ کے معمولات، عادات اور سماجی تعلقات گویا ’لوگوں کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت ہی قطعی نوعیت کی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں‘ اور یہ کہ یہ چیز ’ بنیادی حقوق کی خاص طور پر سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے‘۔
مواصلاتی ڈیٹا کے تحفظ کے علمبردار حلقے اس فیصلے پر بے حد خوش ہیں۔ یورپی پارلیمان میں گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن ژان فلیپ نے اس عدالتی فیصلے کو ’یورپ میں شہری حقوق کے لیے ایک بڑی فتح‘ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اب تک جمع کیا جانے والا ڈیٹا ’قانون کی پاسداری کے سلسلے میں کوئی قابل ذکر بہتری لانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے‘۔