یورپی فکر اور جنوبی ایشیائی شخصیات، تاریخ کے آئینے میں
9 ستمبر 2009پہلی جنگ عظیم کے بعد جب جرمنی نے سلطنت عثمانیہ کا ساتھ دیا تو جنوبی ایشیا کی بہت سی مسلم نامور شخصیات نے جرمنی کی سیاسی، ادبی، ثقافتی اور فکری دنیا کی تسخیر کی۔ وہ یہاں آئے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے انہوں نے جو خیالات اورتصورات مستعار لئے انہیں برصغیر کی سر زمین پر پھیلانے کی کوشش کی۔ جنوبی ایشیا اور جرمنی کو قریب ترین لانے میں جن جنوبی ایشیائی شخصیتوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز سے ہی جنوبی ایشاء کی نامور سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی شخصیتوں نے یورپ کا رخ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر برطانیہ اور جرمنی آئے۔ انہوں نے یہاں کے سیاسی منظرنامے سے لے کر جرمن ثقافت، ادب، فلسفے اور تعلیمی نظام سے بہت کچھ سیکھا۔ جس کے اثرات جنوبی ایشیائی ممالک پر دور حاضر تک نمایاں نظر آتے ہیں۔
منشی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور، جن کا شمار پاکستانی صحافت کے بانیوں میں ہوتا ہے، بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ کے دورے پر آئے- انہوں نے جرمنی، فرانس اور اٹلی میں خاصہ وقت گزارا- ان ممالک کی ثقافت اور سماجی زندگی کا بغور مطالعہ کیا اور اپنے ان مشاہدوں کو انہوں نے پیسہ اخبار کے کالموں میں قلم بند کیا- جو بعد میں سفر نامہ یورپ کے نام سے شایع ہوا- جولائی انیس سو میں برلن آنے والے محبوب عالم کی سرگرمیوں کے بارے میں بیسویں صدی کی ایک اور معروف شخصیت مشہور صحافی، کالم نگار اور مصنف ابن انشاء نے اپنے سفرنامے اوارہ گرد کی ڈائری میں تفصیلات درج کیں۔
بیسویں صدی ہی میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے یورپ کا رخ کیا- انیس سو پانچ سے لے کر آٹھ تک اقبال برطانیہ اور جرمنی میں رہے- جرمنی کی ہائڈلبرگ یونیورسٹی سے انہوں نے ڈاکٹریٹ کی- اقبال جرمنی کے معروف ترین مفکرین نیٹشے اور گوئٹے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے-
علمی اور سیاسی طور پر جن شخصیات نے جنوبی ایشیا اور جرمنی کے مابین فکری، سیاسی اور ادبی رابطے پیدا کیے ان میں زاکر حسین، انکے بھائی یوسف حسین اور کراچی یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر محمود حسین کے نام نمایاں نظر آتے ہیں- تینوں بھائیوں نے جرمنی کی یونیورسٹیوں سے اعلی تعلیم حاصل کی- زاکر حسین انڈیا کے صدر بھی رہے-
یورپی، خاص طور سے جرمن ثقافت اور ادب سے گہرا شغف رکھنے والی ایک اور معروف شخصیت رفیع پیر کی ہے، جو 1898 اٹھانوے میں برصغیر ہندوستان میں پیدا ہوئے اور انکا انتقال 1974 میں پاکستان میں ہوا۔ رفیع پیرکو نوجوانی ہی سے جرمن ثقافت سے بہت گہرا لگاؤ تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ جرمنی آئے ۔ ہائڈلبرگ یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے۔ انہیں جرمن موسیقی اور پرفورمنگ آرٹس کے ساتھ ساتھ جرمن مفکرین نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ جرمنی کے تھیٹر اور اسٹیج ڈراما کا ایک بہت بڑا نام Max Reinhardt رفیع پیر کے لئے ایک رول موڈل تھا۔ دوسری جانب مغربی ڈرامہ اور نغمہ نگاری کے حوالے سے غیر معمولی عالمی شہرت حاصل کرنے والے جرمن فنکار Berthold Brecht کے ساتھ کام کرنے کا رفیع پیر کو جنون کی حد تک شوق تھا۔ رفیع پیر نے فنون لطیفہ کے شعبے میں اعلی تعلیمات حاصل کرنے کے لئے پہلے برطانیہ کا رخ کیا مگر جلد ہی وہ جرمنی آ گئے۔ جہاں انیس سو بیس کے اواخر میں انہوں نے Max Reinhardt اور Berthold Brecht کی صحبت اختیار کی۔ ان دونوں کی اکیڈمی میں رفیع پیر باقائدہ سیمیناروں میں حصہ لیا کرتے ۔ کچھ عرصے ان جرمن فنکاروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد رفیع پیر انیس سو تیس میں بر صغیر لوٹے اور بھارت میں انہوں نے انیس سو تیس کے اواخر میں انڈین اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس کی بنیاد رکھی۔ انیس سو سینتالیس میں انہوں نے اس کے نام کو بدل کر ’ڈرامہ مرکز‘ رکھ دیا۔ انیس سو چوہتر میں رفیع پیر کے انتقال کے بعد پاکستان کے اس سب سے بڑے اور مشہور ثقافتی مرکز کا نام ’رفیع پیر تھیٹر‘ رکھ دیا گیا۔ جہاں ہر سال بڑی تعداد میں یورپی ، خاص طور سے جرمن آرٹسٹس اور پرفورمرز مختلف پروگراموں میں حصہ لینے آتے ہیں۔
تحریر: کشور مصطفٰی
ادارت: گوہر گیلانی