1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی ممالک شامیوں کے لیے انصاف کی تلاش میں

افسر اعوان22 جون 2016

جرمنی، فرانس، سویڈن اور فِن لینڈ سمیت متعدد یورپی ممالک شام میں سنگین جرائم کے ذمہ دار افراد کے خلاف تحقیقات اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JBNE
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel

یورپ میں کی جانے والی یہ کوششیں دراصل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 60 سے زائد ممالک کی حمایت سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو روس اور چین کی طرف سے ڈبل ویٹو کرنے کے بعد سامنے آئی ہیں۔ مئی 2014ء میں پیش کی جانے والی اس قرارداد میں شامی تنازعے کو بین الاقوامی فوجداری عدالت لے جانے کی بات کی گئی تھی۔

منگل 21 جون کو اقوام متحدہ میں ہونے والے ایک مباحثے جس کا عنوان تھا، ’’شام میں سزا سے بے خوفی میں ابتدائی دراڑیں‘‘ ۔ اس مباحثے میں قانونی چارہ جوئی کے حامیوں اور مخالفین نے شام میں انصاف کی تلاش کے سوال پر کھُل کر بحث کی۔

اقوام متحدہ میں یورپی ملک لِشٹن اشٹائن کے سفیر کرسٹیان ویناویسر کا کہنا تھا کہ یورپی کوششوں میں اضافہ کیا جانا چاہیے اور احتساب کو شامی امن مذاکرات اور جنگ کے حل کی کوششوں کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔

قطر کی طرف سے اقوام متحدہ میں سفارتکار عالیہ الثانی کا کہنا تھا یورپ میں قانونی کارروائی کی صورت میں نہ صرف سزا سے بچاؤ کا راستہ رُکے گا بلکہ ’’متاثرین کو انصاف کی فراہمی کے راستے ملیں گے، جو دوسری جگہ ممکن نہیں ہیں۔‘‘ خاتون سفیر کا مزید کہنا تھا کہ قطر اس طریقہ کار کا حصہ بننے کا خواہش مند ہے: ’’قطر کا آئین دہشت گردی کے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کی اجازت دیتا ہے، بھلے وہ کہیں بھی کیے گئے ہوں اور متاثرین یا ملزمان کا تعلق کسی بھی قومیت سے ہو۔‘‘

سیریئن نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کے مطابق 90 فیصد مبینہ جرائم شامی حکومتی فورسز کی طرف سے کیے گئے
سیریئن نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کے مطابق 90 فیصد مبینہ جرائم شامی حکومتی فورسز کی طرف سے کیے گئےتصویر: picture-alliance/dpa/SANA Handout

سیریئن نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کے چیئر مین فضل عبدالغنی کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے مبینہ جرائم کی ہزاروں فائلیں جمع کی ہیں اور ان کے پاس پانچ کیسز تیار ہیں جنہیں ٹریبونلز میں فوری طور پر جمع کرایا جا سکتا ہے۔ عبدالغنی کا کہنا تھا کہ 90 فیصد مبینہ جرائم شامی حکومتی فورسز کی طرف سے کیے گئے۔

تاہم ایرانی سفارت کار محمد حسنی نے 90 فیصد کے اعدادوشمار کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارے خیال میں شام میں جاری لڑائی، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔‘‘

شامیوں کے لیے انصاف کے حصول کے حامیوں میں سویڈن کی طرف سے اقوام متحدہ میں سفیر اولوف سکوگ بھی شامل تھے۔ انہوں نے سویڈن میں یکم جولائی 2014ء کو نافذ العمل ہونے والے ایک قانون کا حوالہ دیا جس کے مطابق سویڈن کی عدالتیں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف مقدمات سن سکتی ہیں اور ان پر فیصلہ سنا سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے دو مقدمات میں فیصلے سنائے بھی گئے ہیں۔

اقوام متحدہ میں فرانس کے نائب سفیر الیکسس لیمک کا کہنا تھا، ’’فرانس میں شام سے متعلق 350 مقدمات پر عدالتی کارروائی جاری ہے جو 2014ء کے بعد سے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں قائم کیے گئے۔‘‘