بات یورپ میں حجاب پر پابندی کی ہو یا متنازعہ خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی یہی منطق بارہا یاد کروائی جاتی ہے۔ ستمبر 2005ء سے 2020ء تک پیغمبر اسلام کے خاکے یورپ کے مختلف ملکوں سے شائع ہوتے رہے اور اسے صرف اور صرف آزادی رائے کے نام تلے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی اجازت بھی ملتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ 2020ء میں جب میں نے بھی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور فیس بک پر اپنی رائے کا اظہار کیا تو بہت سے یورپین دوستوں نے فوراً کمنٹ کیا کہ خاکے بنانا اتنی بڑی بات نہیں اور یورپ میں اتنی آزادی رائے تو سب کو حاصل ہے۔ یعنی اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہچانا جائز ہے؟ یہ کسی جرم کے زمرے میں ہی نہیں آتا اور نہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے؟ یہ اصول یورپ کے ہیں اور بہرحال یہاں رہنے والوں کو ان پر چلنا تو پڑے گا۔
اسی طرح یورپ میں حجاب پر پابندی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بے شک وقت کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے، وہیں کہیں نہ کہیں ابھی بھی اسے مذہبی شدت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔ 2006ء میں انگلینڈ کے وزیر اعظم نے حجاب کو علیحدگی کی علامت قرار دیا۔ نیدرلینڈز اور فرانس کے سرکاری سکولوں میں حجاب سمیت تمام مذہبی علامات پہننے پر پابندی عائد کی گئی۔ 15 جولائی 2021 ء کو جرمنی میں دو خواتین کو حجاب پہننے پر نوکری سے برطرف کیا گیا۔ اس فیصلے کو یورپین کورٹ آف جسٹس میں درست قرار دیا گیا۔
اب حجاب پہننے کو دنیا کے کسی مذہب میں منع نہیں کیا گیا اور میرے خیال میں اسے پہننے سے کسی بھی ملک کے شہری کے جذبات مجروح نہیں ہوتے مگر کیا کریں کہ جن کا ملک ہے اصول تو آخر انہی کے ماننے ہوں گے۔
اس منطق نے ایک نیا روپ دھارا، جب اس سال یعنی 2022ء میں مقبول ترین کھیل فٹبال کا ورلڈ کپ قطر میں منعقد ہوا۔ قطر ایک اسلامی ریاست ہے اور مسلم اور غیر مسلم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں ہم جنس پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا ملک جہاں اسلامی قانون کا اطلاق ہوتا ہے وہاں یہ سمجھنا کہ قطر سے باہر سے آنے والوں کو کچھ غیر اسلامی اور غیر آئینی حرکت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے سراسر منافقت ہے۔
جرمن فٹبال ٹیم نے اپنے پہلے میچ میں، جو کہ جاپان کے خلاف کھیلا گیا تھا، ہاتھ سے منہ ڈھانپ کر احتجاج کیا کہ ایل جی بی ٹی کی حمایت میں پہنے جانے والے بازو بند کی اجازت نہ دینا ایسا ہی ہے جیسے بولنے جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم کرنا۔
یورپ کی سات ٹیموں کے کپتانوں نے اس بازو بند کی ممانعت ماننے سے انکار کیا مگر فیفا کی طرف سے کارروائی اور یلو کارڈ کی دھمکی پر پیچھے ہٹ گئے۔ جرمن وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ فيفا کو میزبان چنتے وقت انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے جواب میں قطری وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ جرمنی کو یہ خیال توانائی کی شراکت داری اور مختلف کاروباری لین دین میں یاد نہیں آیا کبھی؟
اور اس بات میں واقع کوئی شک نہیں یورپی ممالک اور تمام تر مغربی ممالک کاروباری لین دین میں قطر پر کوئی تنقید نہیں کرتے۔ فیفا کے صدر نے بھی یہی نقطہ یوں واضح کیا کہ یورپ پچھلے تین ہزار سال سے نسل پرستی اور انسانی حقوق کی جیسے پامالی کر چکا ہے اسے کم از کم تین ہزار سال تک معافی مانگنی چاہیے، کسی بھی اور ملک کو سبق دینےسے پہلے۔
کہیں نہ کہیں محسوس ہو رہا ہے کہ بہت سے ممالک کو فيفا کا قطر کو میزبانی کا حق دینا کچھ پسند نہیں آیا اور کوئی نہ کوئی منفی پہلو ڈھونڈنے پر ہی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم جنس پرستی واحد انسانی حق ہے، جو اس وقت خطرے میں ہے اور باقی سب پہلو بھلا کر صرف اور صرف اسی حق کو قطر اور عرب ملکوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ محض چند سال پہلے تک زیادہ تر ممالک میں ہم جنس پرستی کو قبول نہیں کیا جاتا تھا مگر چونکہ اب یورپ اور امریکہ میں اسے تسلیم کر لیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ تمام مذاہب اور تمام ممالک اپنا سرخم کردیں؟ اس ملک میں آئے ہیں تو ان کے اصول تو ماننے پڑیں گے یہاں بھی تو لاگو کر کے دیکھیں تاکہ آپ کے انصاف کا پرچار فخر سے ہو سکے۔
اربوں ڈالر خرچ کر قطر نے یہ میزبانی نبھائی ہے اور ساری دنیا سے آنے والے فٹبال کے شائقین کے لیے ہر طرح کی سہولت کا بخوبی انتظام کیا ہے۔ یہاں تک کہ خصوصی بچوں والے خاندانوں کو الگ پر سکون ماحول میں گیم دیکھنے کی سہولت مہیا کی ہے، مگر اس سب کی ستائش کہیں نہیں ملے گی اور ساری دنیا کی توجہ کا مرکز یہ ہے کہ آخر قطر اپنے مذہب اور آئین کی خلاف ورزی کر کے قوس قضا کی رنگ کے بازو بند کی پابندی ختم کر دے۔ یہ دوغلہ پن سمجھ سے بالاتر ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ جب 2014 میں فٹبال ورلڈکپ کی میزبانی جرمنی نے کی تھی، اگر اس وقت کچھ عرب ممالک جرمنی کو اپنے کسی اصول کی خلاف ورزی پر اصرار کرتے تو کیا در عمل ہوتا؟ اگر تب کھیل کو کھیل تک محدود کر کے صرف فٹبال سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے تو اب کیوں نہیں؟
کچھ جرمن کھلاڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ورلڈ کپ جیت گئے تو قطر میں قطعاً جیت کا جشن نہیں منائیں گے۔ جرمن ٹیم بہرحال ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکی ہے اور وہ جرمنی میں اپنے ہاتھ منہ سے ہٹا کر ایک دفعہ پھر آنکھوں پر رکھ سکتی ہے، جہاں انہیں حجاب کی پابندی گراں نہیں گزرتی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔