لیبیا کو ہتھیار فراہم کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں
22 ستمبر 2020یورپی یونین کے تمام وزراء خارجہ نے ان کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے پر اتفاق کر لیا ہے جو لیبیا میں اقوام متحدہ کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی کے باوجود اسلحہ فراہم کرنے میں ملوث رہی ہیں۔ اس اقدام کے تحت اردن، قزاقستان اور ترکی کی ان تین کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو لیبیا کو اسلحہ فراہم کرنے میں ملوث رہی ہیں۔ اس کے تحت یونین نے ان دو افراد پر بھی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو لیبیا میں جنگی ساز و سامان کی تیاری کے لیے جیٹ طیاروں، جہازوں اور دیگر رسد کی فراہمی میں ملوث رہے ہیں۔
سن 2011 میں لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ملک میں خانہ جنگی کے سبب افرا تفری کا ماحول ہے۔ ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں جو ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ اقوام متحدہ نے 2011 میں ہی لیبیا میں ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم اس پر پوری طرح سے عمل نہیں کیا گیا۔
کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد کئی برسوں سے لیبیا شدید سیاسی، معاشی اور انسانی بحران میں مبتلا ہے۔ ملک کی دونوں حریف حکومتیں ایک دوسرے کو زیر کر کے اپنا تسلط قائم کرناچاہتی ہیں اور اسی کے لیے لڑائی جاری ہے۔ دارالحکومت طرابلس میں دی گورنمنٹ آف نیشنل اکورڈ (جی این اے) کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔ ترکی اور قطر بھی اسی حکومت کے حامی ہیں۔
خام تیل کی دولت سے مالامال شمالی افریقی ملک لیبیا ڈکٹیٹر معمر القذافی کے زوالِ اقتدار کے بعد سے جنگی حالات سے دوچار ہے۔ مسلح قبائلی گروپوں کے درمیان تیل کی دولت کے حصول کے لیے پرتشدد جد و جہد جاری ہے۔ اس وقت لیبیا میں طاقت کے حصول کی کشمکش طرابلس میں قائم اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت اور خلیفہ حفتر کی فوج 'لیبیئن نیشنل آرمی‘ کے درمیان جاری ہے۔
تبروک میں قائم حکومت کو جنگجو سردار خفیلہ حفتر کی ملیشیا ایل این اے کی حمایت حاصل ہے جس نے گزشتہ کئی ماہ سے طرابلس کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس حکومت کو روس، مصر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
اس برس جنوری میں اس تنازعے کے حوالے سے برلن میں ایک امن کانفرنس ہوئی تھی جس میں تمام ممالک نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی فریق کو ہتھیار نہیں فراہم کریں گے لیکن اس وعدے کا کسی بھی فریق نے پاس نہیں رکھا اور وہ اپنے اپنے گروپوں کو کسی نہ کسی طرح اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں۔
لیبیا میں خانہ جنگی کی وجہ سے بحیرہ روم کے ذریعے یورپی ممالک میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کا کام آسان ہوگیا ہے جو پانی کے راستے لوگوں کو چوری چھپے یورپ بھیجتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین اس مسئلے کا جلدی ہی کوئی حل چاہتی ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز)