یورپی یونین میں سیربیا کی شمولیت کا امکان روشن
8 دسمبر 2009پیر کو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی ایک میٹنگ میں سیربیا کے ساتھ تجارتی رابطوں پر عبوری مدت کے لئے پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اِس رکاوٹ کے ہٹنے کے بعد اب سیربیا یونین میں شولیت کی باضابطہ درخواست کر سکتا ہے۔ پیر کو ہونے والی اس میٹنگ میں بیلغراد حکومت پر زور دیا گیا ہے وہ مشتبہ جنگی مجرموں کی گرفتاری کے سلسلے میں مزید اقدامات کرے۔
یورپی یونین میں توسیع کی بات چیت کے دوران سیربیا کی حکومت پر یونین کے وزرائے خارجہ نے واضح کردیا ہے کہ رکنیت کے معاملے میں پیش رفت مشتبہ جنگی مجرموں کی گرفتاری کے علاوہ بین الاقوامی عدالت کے پراسیکیوٹرز کی اُس انکوائری کے ساتھ مکمل تعاون سے نتھی ہے، جو بلقان جنگوں میں سیربیا کی فوج کے عملی طور پر ملوث ہونے کے سلسلے میں کی جا رہی ہے۔
یونین میں سیربیا کی شمولیت کی سب سے زیادہ مخالفت ہالینڈ کی جانب سے سامنے آتی تھی لیکن اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کی عدالت کے چیف پراسیکیوٹر Serge Brammertz کا بیان سننے کے بعد ہالینڈ اپنے موقف سے دستبردار ہونے پر ضرور رضامند ہو گیا لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کردی کہ یونین مزید کسی پیش کش سے قبل بیلغراد حکومت کے مثبت عمل کا جائزہ بھی لے۔ چیف پراسیکیوٹرز نے میٹنگ میں شریک وزرا کو بتایا کہ سیربیا کی جانب سے انہیں مکمل تعاون حاصل ضرور ہے لیکن مجموعی صورت حال اب بھی کمزور سمت کی جانب بڑھ رہی ہے اور اِس کے لئے یونین کا مزید دباؤ انتہائی لازم ہے۔
یورپی یونین کے ایک سفارتکار کے مطابق تمام پیش رفت مثبت ہے لیکن یہ عارضی ہے اور اگلے دنوں میں یورپی یونین کا دباؤ سیربیائی حکومت پر بدستور رہے گا کہ وہ کس انداز میں تعاون کا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے۔ یورپی یونین کے سٹیلائزیشن اور ایسوسی ایشن ایگریمنٹ کے ساتھ عارضی معاہدہ یونین میں شمولیت کی پہلی سیڑھی تصور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال بھی سٹیلائزیشن اور ایسوسی ایشن ایگریمنٹ طے ہو گیا تھا لیکن ہالینڈ نے اِس کو یہ کہہ کر ویٹو کردیا تھا کہ سیربیا کی جانب سے بوسنیا میں سیرب کمانڈر راتکو ملادچ کی گرفتاری پہلے ممکن بنائی جائے، تب ہی وہ اپنے ویٹو کے حق کو استعمال نہیں کرے گا۔ سیربیا کا ہمسایہ ملک مقدونیہ بھی یونان کے سخت موقف میں نرمی کا منتظر ہے۔ یونان کی خواہش ہے کہ مقدونیہ اپنا نام تبدیل کرے کیونکہ یہ اُس کے ایک صوبے کا نام ہے۔ وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ترکی کی رکنیت کے معاملے پر بھی بات کی گئی۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: گوہر نذیر