یورپی یونین میں شمولیت کیسے ممکن ہوتی ہے؟
15 مئی 2022رواں ہفتے کے شروع پر فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا تھا کہ یوکرین اور دوسرے ممالک کی یورپی یونین میں شمولیت میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایسا کہتے وقت ان کے ذہن میں یقینی طور پر ترکی بھی ہو گا، جس نے سن 1999 سے رکن بننے کی درخواست دے رکھی ہے لیکن تب جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے اسے روک دیا تھا۔
یورپ کا یوکرین کی درخواست پر سنجیدگی سے غور لازمی کیوں؟ تبصرہ
ترکی کی رکنیت کے حوالے سے مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی جبکہ دوسری جانب صدر رجب طیب ایردوآن بتریج آمرانہ طرز حکومت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ترکی میں انسانی حقوق کی صورتِ حال خراب تر ہو رہی ہے اور یورپی یونین نے مذاکراتی عمل کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔
کوپن ہیگن معیارات
یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے ملک کو کوپن ہیگن معیارات (کرائٹیریا) کو پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ معیارات سن 1993 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی سمٹ میں منظور کیے گئے تھے۔ ان معیارات میں قانون کی حکمرانی کی ضمانت اور اہم اداروں کی آزادی جیسے امور شامل ہیں۔
ستائیس رکنی یورپی یونین کے اراکین کا خیال ہے رکنیت حاصل کرنے والے ممالک علاقائی صورت حال اور اقتصادی منفعت کے تناظر میں بھی درخواستیں جمع کروانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یورپی یونین کے ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کی موجودہ سیاسی صورت حال اس کی رکنیت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہنگری رکن ہے لیکن وہاں حکومت جمہوری عمل کے منافی اقدامات سے گریز نہیں کرتی۔
’یورپ ثابت کرے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے،‘ یوکرینی صدر زیلنسکی
رکنیت کا حصول اور مذاکراتی عمل
یورپی یونین کو تسلیم کرنے اور اس کے قوانین پر عمل درآمد شروع کرنے کے بعد یورپی کمیشن کے اہلکار رکنیت کے خواہش مند ملک کے ساتھ مذاکرت کا آغاز کر دیتے ہیں۔۔ اس عمل کے دوران اس ملک کو عدالتی، انتظامی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیاں پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ان کی تصدیق یورپی یونین کے معیارات کی روشنی میں اعلیٰ اہلکار کرتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کو دیکھتے ہوئے یورپی کونسل کو متفقہ طور پر انہیں تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
اس کے بعد کے مرحلہ میں یورپی کمیشن کی جانب سے درخواست کا جامع جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ تعین کیا جاتا ہے کہ اس ملک کے ادارے تجویز کردہ فریم ورک کے مطابق عمل کر رہے ہیں اور اس مناسبت سے مذاکراتی عمل کو کئی حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
یورپی یونین کی رکن ریاستیں اس عمل کو تسلیم کر لیں تو پھر مذاکراتی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ مذاکرات موضوعات میں تقسیم ہوتے ہیں، جیسے کہ بنیادی امور، داخلی منڈی، مسابقتی عمل، ترقی کی رفتار، گرین ایجنڈا اور پائیداری، ذخائر، زراعت اور آپس میں ربط و ملاپ وغیرہ ہیں۔
ان موضوعات پر مذاکرات میں جہاں جہاں کمی پائی جاتی ہے، ان کو پورا کرنے کے لیے یورپی کمیشن کے مذاکرات کار تجاویز فراہم کرتے ہیں یا بتدریج ترقی کا عمل واضح کرتے ہیں۔ ان معاملات پر مکمل عمل درآمد کے لیے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔
ترکی کا یورپی یونین سے الحاق کا عمل جمود کا شکار
ایک بات اہم ہے کہ اگر رکنیت حاصل کرنے والا ملک تجاویز پر عمل کو مسترد کر دیتا ہے تو رکنیت کا عمل رک جاتا ہے اور اس کی مثال ترکی ہے، جہاں کئی معاملات اس وقت یورپی یونین کی بنیادی پالیسیوں کے منافی خیال کیے جاتے ہیں۔
رکنیت سازی کا تھکا دینا والا سلسلہ
یورپی یونین نے رکنیت سازی کے لیے چودہ بلین یورو سے زائد مختص کر رکھے ہیں۔ نئے رکن بنانے کے عمل میں بے شمار سیاسی معاملات کو حل کرنا پڑتا ہے۔ کوسوو اور بوسنیا ہیرزگووینا کی رکنیت بھی رکی ہوئی ہے۔ ان کی یونین میں شمولیت کے عمل میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے کیونکہ ان کی حکومتوں نے ہمسایہ ممالک کو دھمکیاں دے رکھی ہیں جو یورپی یونین کے معیارات کے منافی ہیں۔
کئی سالوں سے سربیا اور مونٹی نیگرو بھی رکنیت کی درخواست جمع کروائے ہوئے ہیں لیکن یورپی کمیشن کے خدشات ان ممالک سے ابھی تک رفع نہیں ہو سکے ہیں۔
حال ہی میں رکنیت سازی کا مذاکراتی عمل شمالی مقدونیہ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔ اس عمل کو ہالینڈ کی حکومت نے اب روک دیا ہے کیونکہ وہاں کی حکومت سرحدوں کے آرپار ہونے والے جرائم کی بیخ کنی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
مجموعی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت پلیٹ میں رکھا پھل نہیں بلکہ یہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے جو کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
باربرا ویزل (ع ح/ ع ا)