یورپی یونین کا سخاروف انعام زیر حراست سعودی بلاگر کے لیے
16 دسمبر 2015فرانس کے شہر اسٹراس برگ سے بدھ سولہ دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی پارلیمان میں منعقدہ ایک تقریب میں آج اپنے شوہر کے ایما پر یہ انعام وصول کرتے ہوئے انصاف حیدر نے کہا کہ عرب ملکوں کو یہ سیکھنا ہو گا کہ مختلف طرح کی سوچوں اور آراء کو کیسے برداشت کیا جاتا ہے۔
انصاف حیدر کے رائف بدوی سے تین بچے ہیں اور وہ اپنے ان بچوں کے ہمراہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں، جہاں انہوں نے سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ اپنے شوہر کو ملنے والا اور یورپی یونین کا انتہائی مؤقر سمجھا جانے والا انسانی حقوق کا سخاروف انعام وصول کرتے ہوئے انصاف حیدر نے یورپی پارلیمان کے ارکان سے اپنے خطاب میں کہا کہ مثبت تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ عرب ریاستوں کے حکمران اختلاف رائے کو برداشت کرنا سکھیں۔
رائف بدوی کو سعودی عرب میں توہین اسلام کے الزام میں دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ اس وقت بھی سعودی عرب کی ایک جیل میں قید ہیں۔ انصاف حیدر نے یورپی ارکان پارلیمان کو بتایا کہ ان کے شوہر کو سزا اس لیے سنائی گئی کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’آزادی اظہار اس ہوا کی طرح ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔‘‘
اسٹراس برگ کی پارلیمان کے اس اجلاس کی صدارت پارلیمانی اسپیکر مارٹن شُلس نے کی۔ انہوں نے رائف بدوی کو دیا جانے والا سخاروف انعام انصاف حیدر کے حوالے کرتے ہوئے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے بدوی کے لیے معافی کی اپیل بھی کی۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹک سیاستدان مارٹن شُلس نے کہا، ’’رائف بدوی کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں مزید کسی تاخیر کے بغیر رہا کیا جانا چاہیے۔ انہیں یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ سکیں۔‘‘
اسی بارے میں نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ رائف بدوی نے جب 2008ء میں اپنا آن لائن بلاگ لکھنا شروع کیا تھا، تو انہیں علم نہیں تھا کہ یہی بلاگ ان کی زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دے گا اور نتیجہ ان کو سنائی گئی دس سالہ سزائے قید کی صورت میں بھی نکلے گا۔
ڈی پی اے کے مطابق اس وقت 31 سالہ بدوی کا قصور یہ ہے کہ وہ بہت قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب کے ایک ایسے لبرل بلاگر ہیں، جو انسانی حقوق کے بڑے حامی بھی ہیں۔ انہیں بظاہر توہین مذہب کے نام پر سزا اس لیے سنائی گئی کہ وہ آزادی رائے اور آزادی اظہار کے حق کے دفاع میں اپنا قلم اٹھاتے رہے ہیں اور انہوں نے وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والے سعودی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے کی جانے والی اسلام کی بہت سخت اور مختلف تشریحات پر بھی تنقید کی تھی۔
رائف بدوی کو 2012ء میں جب گرفتار کیا گیا تھا تو ان پر مرتد ہونے کا الزام بھی لگایا گیا تھا، جس کی سعودی عرب میں سزا موت ہے۔ تاہم ان کے خلاف مقدمے کی ابتدائی سماعت کے بعد ایک اعلیٰ عدالت نے ان کے خلاف مرتد ہو جانے سے متعلق لگایا گیا الزام رد کر دیا تھا اور یوں ان کی جان بچ گئی تھی۔ 2014ء میں بدوی کو دس سال قید، ایک ہزار کوڑوں اور ایک ملین سعودی ریال جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
بدوی کی اہلیہ انصاف حیدر کے بقول سعودی حکام نے کچھ عرصہ قبل ان کے شوہر کو ملک کی ایک الگ تھلگ جیل میں منتقل کر دیا تھا، جس کے خلاف بدوی نے احتجاجاﹰ بھوک ہڑتال بھی شروع کر دی تھی۔ اس بارے میں سعودی حکام کی طرف سے کسی بھی طرح کی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔